چلتے چلتے ہو گئ ہے شام جب
اے مِری منزل ٹھہر جا چل نہ اب
بس رضا رب کی دعا ماں کی رہے
کچھ زیادہ اور ہو مانگا تھا کب
قبر میں تنہا لٹا واپس گئے
بھائی ہمساےء اقارب اور سب
توڑا ہو گا اس نے دل معصوموں کا
بے کلی یوں ہی نہیں ہے بے سبب
اہلیت بکھری پڑی ہے چار سو
بے حیا نااہل ہیں کیوں منتخب
تلخیاں بھی کام اپنا کر گئیں
ورنہ میں ہرگز نہیں تھا بے ادب
سیکھ لے کچھ مانگنا اسلم تو بھی
کچھ یہاں ملتا نہیں ہے بے طلب

97