تو جو چاہے تری نظروں سے گرا دے مجھ کو
تیرے بس میں نہیں کے دل سے بھُلا دے مجھ کو
لڑ کے طوفاں سے اتر تو گیا ہوں ساحل پر
اب کدھر جاؤں کوئی یے تو بتا دے مجھ کو
ہے خطا میری محبت پے یقیں رکھتا ہوں
اب تری مرضی ہے جو چاہے سزا دے مجھ کو
میرا تو حق ہے مرے دل پے جسے چاہوں رکھ لوں
تیرا ہے فیصلہ گر دل سے ہٹا دے مجھ کو
خوش ہوں خوابوں میں ہی تعبیر ضروری کیوں ہے
ڈر ہے اے دوست کہیں تو نہ جگا دے مجھ کو
بزمِ حاضر میں ہر اک شخص کھڑا ہے تنہا
تنہائی تو ہی کوئی راہ سجھا دے مجھ کو
ایک عرصے سے تجھے ڈھونڈ رہا ہوں اسلم
زندگی آ ابھی مجھ سے ہی ملا دے مجھ کو

0
83