نا منزلوں کی ہے نہ کسی قیصری کی ہے |
دنیا میں زندگی کی مہم واپسی کی ہے |
حسرت تھی یے بہارِ چمن دائمی رہے |
منصوبہِ چمن میں خزاں بے بسی کی ہے |
پہلی سی لذتیں ہیں کہاں زندگی میں اب |
دورِ جدید میں یے فضا بے رخی کی ہے |
ہر دل کو حق ہے اور کسی دل میں جا بسے |
ورنہ دلوں کے ساتھ جفا بے گھری کی ہے |
معلومات