فریبیوں کے بھنور سے نکل گئے ہوتے |
جو ہاتھ آپ کا ہوتا سںبھل گیے ہو تے |
شکوہِ بے حسی بے جان راستوں سے کیوں |
حواس والو تم ہی بدل گئے ہوتے |
مصیبتوں نے توازن بنارکھا ورنہ |
کسی نشیب پے لازم پھسل گیے ہو تے |
نا دیکھا جی بھر کے نہ بات کی ان سے |
ابھی تو آےء ہی تھے وہ کل گیے ہو تے |
تمہارے کرم کا تھا سایہ ورنہ اے اسلم |
تپش تھی اتنی کے پتھر پگھل گیے ہو تے |
معلومات