فریبیوں کے بھنور سے نکل گئے ہوتے
جو ہاتھ آپ کا ہوتا سںبھل گیے ہو تے
شکوہِ بے حسی بے جان راستوں سے کیوں
حواس والو تم ہی بدل گئے ہوتے
مصیبتوں نے توازن بنارکھا ورنہ
کسی نشیب پے لازم پھسل گیے ہو تے
نا دیکھا جی بھر کے نہ بات کی ان سے
ابھی تو آےء ہی تھے وہ کل گیے ہو تے
تمہارے کرم کا تھا سایہ ورنہ اے اسلم
تپش تھی اتنی کے پتھر پگھل گیے ہو تے

99