خموشی سے کدورت اور بھی گمبھیر ہوتی ہے
کرو باتیں کہ باتوں میں چھپی تدبیر ہوتی ہے
بظاہر لاکھ گرد آلود کر دے وقت کی آندھی
نمایاں دسترس دل میں تری تصویر ہوتی ہے
خدا کی تھی خدا کی ہے خدا کی ہی رہے گی یے
جو رکھوالے تھے اُن کی کب یہاں جاگیر ہوتی ہے
حسد کی آگ میں ہر وقت حاسد خود ہی جلتا ہے
عمارت پر عمارت خوب تر تعمیر ہوتی ہے
جو نسلیں علم کی دولت سے ہوں محروم ان کے تو
گلے میں طوق پیروں میں پڑی زنجیر ہوتی ہے
لگانا ضرب جب دل پر تو ظالم یاد یے رکھنا
اسی دل میں تمہاری ذات کی توقیر ہوتی ہے
نہیں ڈر ہے تجھے دنیا سے 'اسلم' جان لے دنیا
ترے دل میں خدا کے خوف کی تنویر ہوتی ہے ـ

99