‏میں تھک گیا ہوں
روز و شب کی مسافتوں سے
دوستوں کی شرارتوں سے
تری بدلتی ان عادتوں سے
میں تھک گیا ہوں
مرے بھی سینے میں ایک دل ہے
خواہشیں ہیں، ضرورتیں ہیں
پہلے دن سے ہی میں نے خود کو
تمہاری دنیا میں قید رکھا
درد جھیلا، ہر حکم مانا
تم ہی بتاؤ مجھے ملا کیا؟
‏اس شہر غم میں
میں اب سفر کر کر کے تھک گیا ہوں
فنا کی دنیا کا میں مسافر
اب اپنی منزل کو چل پڑا ہوں
تمہیں خبر ہو
کہ ایسے رستے کو جانے والے
کبھی نہ پلٹے۔

0
71