جن سے امید تھی وہ بھی تو نہ اچھا سمجھے
اب زمانہ بھی نجانے مجھے کیا کیا سمجھے
اپنی قسمت میں ہی لکھا نہ تھا ہمسر ہونا
ہم نے اک عمر تو اک دوجے کو پرکھا سمجھے
اس کی خاطر تو میں یہ جاں بھی نچھاور کر دوں
کوئی تو ہو جو مجھے جاں سے بھی پیارا سمجھے
آپ کی باتیں بجا، درد بھی رکھتے ہوں گے
کیسے یہ باتیں کوئی فاقوں کا مارا سمجھے
اس قدر تجھ پہ یقیں تھا کہ ترے کہنے پر
ہم ترے جذبوں کے صحرا کو بھی دریا سمجھے

0
88