جب کوئی معتبر نہیں رہتا
عشق پھر پُر اثر نہیں رہتا
رزق رہتا مری تلاش میں ہے
سارا دن میں بھی گھر نہیں رہتا
دور جانے پہ وہ اداس بھی ہے
پاس بھی جو مگر نہیں رہتا
ایک اک کر کے پتے جھڑتے ہیں
پھر کسی دن شجر نہیں رہتا
کیا کہا! راستہ بدلنا ہے
اب تو اتنا سفر نہیں رہتا

0
92