روح پیاسی ہے کیا کیا جائے
اک اداسی ہے کیا کیا جائے
ہر گلی میں درندے پھرتے ہیں
بد حواسی ہے کیا کیا جائے
یہ ترقی عذابِ جاں ٹھہری
بے لباسی ہے کیا کیا جائے
جنبشِ لب پہ جان اٹکی ہے
تیری داسی ہے کیا کیا جائے
وہ جو اک آشنا تھا اس سے بھی
نا شناسی ہے کیا کیا جائے

84