وہ اس حیات کا مقصد کبھی سمجھ نہ سکا
جو مانگتا تھا خدائی، خودی سمجھ نہ سکا
وہ کہہ گیا تھا کہ لوٹا تو پھر ملوں گا تجھے
میں اتنا سادہ کہ اس تو کو ہی سمجھ نہ سکا
میں اس کے ہاتھ میں اک گل تھما کے آیا تھا
وہ اتنا سادہ اشارہ کبھی سمجھ نہ سکا
وہ عادتاً ہی سدا مسکرا کے ملتا تھا
میں سادہ دل تھا بَلا کا تبھی سمجھ نہ سکا
وہ کل ملا تو کہا بولو خوش تو ہو فانی
جو پاس رہ کے بھی میری خوشی سمجھ نہ سکا

0
83