‏میں تری یاد کو عادت نہیں ہونے دیتا
درد کو اپنے اذیت نہیں ہونے دیتا
چوٹ کھایا ہوا، ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا دل
اب کسی طور محبت نہیں ہونے دیتا
ایسا ظالم ہے خیالوں سے نکلتا ہی نہیں
میرے سجدوں کو عبادت نہیں ہونے دیتا
‏وہ مجھے پاس بٹھاتا ہے، نہ کچھ بولتا ہے
جانے لگتا ہوں تو رخصت نہیں ہونے دیتا
میرے اندر کوئی آوارہ سا بچہ ہے کہ جو
مجھ پہ کچھ نقشِ نصیحت نہیں ہونے دیتا
باپ جب تک بھی رہے سر پہ سلامت فانؔی
اپنے بچوں میں سیاست نہیں ہونے دیتا

101