Circle Image

Bashir Ahmed Habib

@Bashirhabib

اجڑی ہوئی بستی میں ہوا گونجتی ہے
ان دیکھے مکینوں کی صدا گونجتی ہے
خالی کمروں سے بھی آتی ہے صدا
گزرے ہوئے ماضی کی ندا گونجتی ہے
رت بدلی پرندوں نے تو کر لی ہجرت
اب شاخوں میں یخ بستہ نوا گونجتی ہے

1
16
دشتِ ہجر و وصال سے آگے ہے
میرا پڑاؤ ماہ و سال سے آگے ہے
قیدِ نظارہ چشم اور یہ مشکل
رازِِ الفت جمال سے آگے ہے
وہ بھی گم جو میرا ماضی تھا کبھی
مٹ جائے گا جو حال سے آگے ہے

0
4
جہاں تک گیا خلا سے باہر نہیں گیا
کوئی راستہ فنا سے باہر نہیں گیا
اگر فکر تھی تو خال و خد سے جُڑی ہوئی
کوئی جسم کی فضا سے باہر نہیں گیا
ہے اپنی بقا کی جنگ یہ عاشقی تمام
تو ہم میں کوئی بقا سے باہر نہیں گیا

0
7
ڈوب کر مرنے سے تو بہتر ہے کہ پانی سے نکل
خواہشوں کے بحر کی اس کرانی سے نکل
آ گ سے ڈھالے گئے ! آغاز تھے پانی سے ہم!
راز سب کھل جائیں گے اک بےمکانی سے نکل
تُو فنا ہو جائے گا اک خوش ادا کے نام پر
سوچ کی اس راجدھانی، رایگانی سے نکل

0
4
ہم کسی کے تھے وہ کسی کے تھے
ضبط کے امتحاں سبھی کے تھے
ہر کسی میں ہی ڈھونڈھنا ان کو
اب یہ معمول زندگی کے تھے
وقت بیٹھا تھا ان کے پہلو میں
رات ان کی تھی، دن انہی کے تھے

0
2
پہلے تو کچھ بوندیں ٹپکیں پھر وہ بادل اتنا برسا
تن بھی جل تھل من بھی جل تھل سمجھو تم اک دریا برسا
کاگا بولا گھر کی چھت پر، تم آؤ گے شام سے پہلے
بن گئیں گلیاں رستے دریا پھر تو بادل ایسا برسا
اس چوبارے کے پچھواڑے سے بادل کا اک ٹکڑا نکلا
سارے فلک پر چھا کے پھر وہ ساون رت کے جیسا برسا

0
8
ذرے کی کائنات سے آگے کھڑا تھا میں
باہر جو دیکھا ذات سے آگے کھڑا تھا میں
اس کی تمام بات میں تھی آگہی مگر
ہر آگہی کی بات سے آگے کھڑا تھا میں
دکھ کی طویل رات میں سب بے زباں ہوئے
دکھ کی طویل رات سے آگے کھڑا تھا میں

0
2
کبھی احساس یہ ہوا ہی نہیں
میں جہاں تھا وہاں کا تھا ہی نہیں
تیری نسبت بھی اِس زمین سے ہے
تجھ سے مل کر کبھی لگا ہی نہیں
مجھ کو مطلوب تیری ذات بھی ہے
چہرے، یہ ارض یہ سما ہی نہیں

0
6
چشم دی روشنی بھی دی اس نے
آب بھی تشنگی بھی دی اس نے
حسن کو بے رخی بھی دی اس نے
عشق کو بے بسی بھی دی اس نے
شاخ در شاخ ساتھ کانٹوں کا
پھول کو دل کشی بھی دی اس نے

1
10
وہ جب گیا تو روشنی بھی ساتھ لے گیا
آنکھوں کا نور، تیرگی بھی ساتھ لے گیا
اب کیسے ہو گی شام ، کٹے گی یہ رات کیا
وہ روز و شب کی تشنگی بھی ساتھ لے گیا
میرے لیے وہ چھوڑ گیا خواب سی تھکن
دیوار پر لگی گھڑی بھی ساتھ لے گیا

0
4
دل میں جو بستے ہوں وہ جایا نہیں کرتے
کیوں ضد ہے جب علم ہے ایسا نہیں کرتے
آنکھوں سے، ہاں دو اک چھللک جاتے ہیں آنسو
جاتے ہوئے کھل کے تو رویا نہیں کرتے
خوشبو ہو بہت ، پھول مگر وہ نہیں بنتی
جب مل نہ سکیں یاد بھی آیا نہیں کرتے

0
8
ظلم کی یہ داستاں ان کہی رہ جائے گی
تیرگی مٹ جائے گی روشنی رہ جائے گی
درد بھی مٹ جائے گا زخم بھی بھر جائیں گے
اشک بھی تھم جائیں گے بس خوشی رہ جائے گی
ظلم کے یہ سلسلے خاک میں مل جائیں گے
خود سری مٹ جائے گی بے بسی رہ جائے گی

0
4
زمانے میں یہ جتنی روشنی ہے 
چراغِ مصطفٰی کی روشنی ہے 
جو ہوں گویا حدیثِ قدسیہ ہے
 نہ ہوں گویا تو پھر بھی روشنی ہے
انہی کے نور سے دل ہیں منور
دو عالم میں انہی کی روشنی ہے

0
20
محبت روشنی سورج ستارہ قید میں ہے
یہ عالم اس میں جو کچھ ہے وہ سارا قید میں ہے
اسے ہی چار سو دیکھیں تو نظریں ہیں مقید
مگر ہم یہ سمجھتے ہیں نظارہ قید میں ہے
ارادوں میں زلیخا آج بھی آزاد لیکن
جہاں میں یوسفِ ثانی دوبارہ قید میں ہے

0
31
دور رہتا بھی نہیں پاس آتا بھی نہیں
میرے محور سے نکل پائے ایسا بھی نہیں
آگے بستی ہے کوئی اور صحرا بھی نہیں
مڑ کے دیکھوں تو وہ شہرِ تمنا بھی نہیں
سامنا تجھ سے جو ہو، مجھ سے دل الجھے نہیں
عمر کے پچھلے پہر، حال ایسا بھی نہیں

0
21
تمنا یوں مچلتی ہے کہ دنیا بھول جاتے ہیں
پھر اک دن یوں بھی ہوتا ہے تمنا بھول جاتے ہیں
یہ اپنی ڈالیوں سے ٹوٹ کر بکھرے ہوئے کچھ پھول
دیارِ غیر میں اک دن مہکنا بھول جاتے ہیں
نہیں ہے یاد تک ان کو اب ان گودوں کی حدت بھی
کہ جن میں بیٹھ کر بچے یہ دنیا بھول جاتے ہیں

1
39
دائرے میں اک سفر تھا، انتہا کچھ بھی نہیں
عمر بھر چلتے رہے اور فاصلہ کچھ بھی نہیں
ایسے ظاہر کر رہا تھا وہ ہوا کچھ بھی نہیں
شہر سارا جانتا تھا، اب بچا کچھ بھی نہیں
نور کے ہیں سلسلے یہ چار سو ٹہرے ہوئے
عالمِ ارض و سما اس کے سوا کچھ بھی نہیں

0
27
کسی خیال سے بندھے ہوئے تھے ہم
سمجھیو مت، یونہی رکے ہوئے تھے ہم
پلک جھپکنے تک تماشہ گاہ میں
کسی کے دھیان سے اٹے ہوئے تھے ہم
خرید لائے تھے جو آ گ کے عوض
انہی اندھیروں میں گھرے ہوئے تھے ہم

0
24
وہ آندھیاں چلیں نقشِ پا نہیں رہا
یادوں کی ٹہنیوں پر پتا نہیں رہا
نظریں چرائے بن وہ گزرا ہے پاس سے
وہ صاف صاف کہہ دوں میرا نہیں رہا
بے حد حسیں لگا تھا وہ چاند رات کو
جب روشنی ہوئی تو ویسا نہیں رہا

0
19
ان لبوں پر بات آ کر زندگی ہو جائیگی
جس طرف وہ دیکھ لیں گے روشنی ہو جائیگی
زندگانی کا چلن سب کے لیے ہے ایک سا
آشنا ہو جاؤ گے یہ اجنبی ہو جائیگی
عمر کے سب سلسلے بس اک گھڑی ہو جائیں گے
اک تمنا پھیل کر جب زندگی ہو جائیگی

0
34
ہم پاس تھے مگر کبھی باہم نہیں ہوئے
تصویر میں جو فاصلے تھے کم نہیں ہوئے
یہ زندگی کی جنگ جو ہارے ہیں عمر بھر
یہ اس لیے ہوا کہ وہ ہمدم نہیں ہوئے
ان کی ہنسی بہار ہے، پلکیں اُٹھانا دھوپ
بے اختیار یوں کبھی موسم نہیں ہوئے

0
35
جیسے جیسے زندگی کی آگہی بڑھتی گئی
اس جہانِ کُن میں میری بے بسی بڑھتی گئی
دسترس میں آئے ہم تو پھڑپھڑائے تھے بہت
دسترس بڑھتی گئی آمادگی بڑھتی گئی
آرزو نے ہاتھ سے اس زور سے پکڑا مجھے
ہوش سب رخصت ہوئے اور بے خودی بڑھتی گئی

0
34
زمانے میں یہ جتنی روشنی ہے
چراغِ مصطفٰی کی روشنی ہے
جو ہوں گویا حدیثِ قدسیہ ہے
نہ ہوں گویا تو پھر بھی روشنی ہے
مرے اطراف ہے تاریک جنگل
مرے دل میں انھی کی روشنی ہے

0
34
میں کون ہوں ہر کوئی یہ پوچھتا ملا
اُس گلی میں جو ملا وہ گمشدہ ملا
وہ نورِ فلک جب سے مری خاک میں ملا
اک آسماں کا خاک کو پھر مرتبہ ملا
وہ غائب تھا اور مجھے ملنا بھی تھا ہر طور
اس جستجو میں بیچ کا وہ رابطہ ملا

0
27
میری ساری زندگی کی بے کلی ہے اک طرف
بے سبب سی بات پر اس کی ہنسی ہے اک طرف
دیکھ تو سکتا ہوں اس کو چھو نہیں سکتا مگر
اک طرف میرا جنوں ہے، بے بسی ہے اک طرف
میری ساری گفتگو اور اس کے وہ خاموش لب
سب دلیلیں اک طرف اور خامشی ہے اک طرف

0
35
اب فراتِ وقت میں کرب و بلا ممکن نہیں
تو حُسین ابنِ علی پھر دوسرا ممکن نہیں
کربلا سے ہر سفر ہے قتل گاہوں کی طرف
کوفیوں کا کربلا سے رابطہ ممکن نہیں
بادلوں کے دوش پر پلٹا کرے برسوں مگر
پانیوں کے بخت میں وہ قافلہ ممکن نہیں

27
روبرو آ کے مرے شکل دکھا دی اس نے
لامکانی کا سفر ،مجھ کو سزا دی اس نے
یہ کوئی طرزِ سیاست تھا کہ یہ حکمت تھی
نہ تو امید کو توڑا نہ صدا دی اس نے
میں نے بھی شاخِ تمنا سے وہی پھل توڑا
تو اسی جرم پہ مجھ کو بھی سزا دی اس نے

0
26
وہ جو ملتا ہے گماں کی حد تک
ہم نے چاہا تھا مکاں کی حد تک
تجھ پہ مر جانا امر ہونا تھا
وقت کی قید تھی جاں کی حد تک
زخم بھر جانے کا امکاں کم ہے
تیر پھینکا ہے کماں کی حد تک

0
35
مجھ سے جانے کیوں روٹھے ہو
سب سے تم ہنس کر ملتے ہو
دل میں اتنا درد چھپا کر
کیسے تم ہنستے رہتے ہو
اپنے گھر کو آ کر دیکھو
اس دل میں بس تم بستے ہو

0
59
دل میں وہ درد اٹھا آخر شب
تو بھی درماں نہ ہوا آخر شب
وہ بھی خوشبو میں ڈھلا آخر شب
میں بھی پھر میں نہ رہا آخر شب
دل سرائے میں ہے تنہا روشن
تیری یادوں کا دیا آخر شب

0
32
وقت سے بھی ماورا ہیں آپ ہی
زندگی سے رابطہ ہیں آپ ہی
حسن کا اک معجزہ ہیں آپ تو
ہر طرف جلوہ نما ہیں آپ ہی
ابتدا ہر کام کی ہے آ پ سے
ہر سفر کی انتہا ہیں آپ ہی

0
51
وقت کی رفتار سے یوں ربط پیدا کر لیا
اپنی ساری زندگی کو میں نے لمحہ کر لیا
کہکشاں در کہکشاں جس بھی قدر پھیلاؤ تھا
اس قدر کھینچا کہ اس کو اک تمنا کر لیا
نیند میں دیکھا اسے اور خواب میں چاہا اسے
نیند کا وقفہ تھا جس کو ایک دنیا کر لیا

0
39
جب اِلْتِفات اس نے زیادہ نہیں کیا
میں نے بھی زندگی کا اعادہ نہیں کیا
جب بھی ہنسے تو آنکھ میں آنسو بھی دے دئیے
جب غم بڑھا خوشی کو زیادہ نہیں کیا
میں منتظر رہوں گا اسے کہہ نہیں سکا
اس نے بھی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

0
28
آرزوئے بے کراں کا یوں احاطہ کر لیا
اپنی ساری جستجو کو ایک چہرہ کر لیا
اک تمنا نے مجھے ہر درد سے ملوا دیا
اپنے غم کو لیلی مجنوں، ہیر رانجھا کر لیا
گو تمنا ایک تھی لیکن ہزاروں روپ تھے
میں نے اپنے بخت کا تم کو ستارہ کر لیا

0
46
درد میں تھیں راحتیں اک شخص کے اعجاز سے
دھوپ میں تھیں بارشیں اک شخص کے اعجاز سے
سبز تھیں سب حسرتیں اک شخص کے اعجاز سے
خواہشیں تھیں مشعلیں اک شخص کے اعجاز سے
نور کا سیلاب تھا جو آنکھ خیرہ کر گیا
گم ہوئیں سب صورتیں اک شخص کے اعجاز سے

0
37
ربطِ پیہم کا اس نے راستہ رکھا
شہر حیرت کا در مجھ پر کھلا رکھا
زخم دے کر اسے تو لا دوا رکھا
ضبط میں آگہی کا سلسلہ رکھا
زندہ رکھی تمنا وقت آخر بھی
عشق کا حوصلہ جاں سے بڑا رکھا

0
24
اک تمنا کے ہی ہاتھوں میں فنا ہو جانا
اس سے بہتر ہے کسی دکھ کی دوا ہو جانا
میرے اہداف محبت میں یہ بھی شامل ہے
ہر کسی چاک گریباں کی نوا ہو جانا
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جاں سے گزر جانا ہے
عشق ہے ساعتِ حیرت میں فنا ہو جانا

0
22
تیرے جمال کی زد میں ہوں
میں اپنی ذات کے رد میں ہوں
دشتِِ امکاں رہ گیا پیچھے
میں تیرے خیال کی حد میں ہوں
تری گفتگو میں تو ذکر کہاں
ترے لہجے کے شد و مد میں ہوں

0
38
سنتے آ ہے ہیں یہاں حسب دعا ملتا ہے
میں نے مانگا ہے تجھے دیکھیے کیا ملتا ہے
ہر ملاقات میں احساس نیا ملتا ہے
درد دیتا ہے کبھی بن کے دوا ملتا ہے
اسی کوچے میں حقیقت کا پتہ ملتا ہے
جب یہاں بت نہیں ملتا تو خدا ملتا ہے

0
24
اک تمنا تھی فاصلے تھے بہت
ایک مرکز تھا دائرے تھے بہت
حیطہ قرب میں تھے کچھ لمحات
دشت فرقت میں رتجگے تھے بہت
ایک رستہ ہے میں سمجھتا رہا
اب جو سوچا تو راستے تھے بہت

0
31
رخ پر کھلے گلاب الگ سے تھے
خوشبو تو تھی عذاب الگ سے تھے
سب نے سجا کے رکھے تھے آنکھوں میں
ہر ذہن میں سراب الگ سے تھے
کچھ تو سوال بھی تھے بہت مشکل
اورکچھ ترے جواب الگ سے تھے

0
49
کچھ دل کے مسئلے بھی الگ سے تھے
چاہت کے ضابطے بھی الگ سے تھے
ساقی کے فیصلے بھی الگ سے تھے
محفل میں ہم رہے بھی الگ سے تھے
الفت میں مشکلیں بھی الگ ہی تھیں
الفت میں حوصلے بھی الگ سے تھے

0
48
ہیگل کا فلسفہ بھی سفر میں تھا
ایڈم کا رمزیہ بھی سفر میں تھا
ہم سب بھی دائروں میں ہی چلتے تھے
ہر ایک دائرہ بھی سفر میں تھا
منزل کے راستے بھی سفر میں تھے
منزل سے فاصلہ بھی سفر میں تھا

0
66
غزل
برسوں کے بعد دل میں وہ جذبہ نہیں رہا
ہم مر مٹے تھے جس پہ وہ چہرہ نہیں رہا
باتیں تو اس کی آ ج بھی دل کے قریب ہیں
گھر کر گیا تھا دل میں جو لہجہ نہیں رہا
اب مجھ میں بندگی کی وہ خواہش نہیں رہی

0
55
غزل۔۔۔
کتنا روشن ہے نگر شام کے بعد
جب سے لوٹا ہے وہ گھر شام کے بعد
کیسے گلزار سے ہو جاتے ہیں!
اس کی یادوں کے شجر شام کے بعد
اس کو رکنا تھا یہاں صدیوں تک

0
89
غزل ۔۔۔۔
کوئی لمحہ نہیں، اس کو سوچا نہیں
اک زمانہ ہوا جس کو دیکھا نہیں
ایک مدت ہوئی وہ بھی بے چین ہے
ایک عرصہ ہوا میں بھی سویا نہیں
جو مجھے یاد آتا رہا دم بدم

0
86
غزل۔۔
مسافتوں میں عجب سلسلہ رہا
وہ روبرو تھا مگر فاصلہ رہا
تری طلب مری منزل بنی رہی
مرا عدو مرے اندر چھپا رہا
جو ان کے سامنے میں کہہ نہیں سکا

0
84
غزل۔۔
چاہتیں جذبِ دروں مانگتی ہیں
سر پھری ہوں تو جنوں مانگتی ہیں
دھڑکنیں اپنی روانی کے لیے
تیرے لہجے کا سکوں مانگتی ہیں
اس جنم میں تجھے پانے کے لیے

0
104
اب جو بچھڑے ہیں تو ملنے کا گماں باقی ہے
جیسے مٹ جانے کے بعد اگلا جہاں باقی ہے
خواہشیں مرتی نہیں شکل بدل لیتی ہیں
جل بجھا شعلۂ جاں کب کا، دھواں باقی ہے
کس کی منزل تھی کہاں، کس کو کہاں رکنا تھا
دید وا دید گئی، عمرِ رواں باقی ہے

0
89
آ نکھ تو ہے بینائی نہیں ہے
مَن بھیتر تنہائی نہیں ہے
تیری باتیں کیسے جانوں
تجھ تک مری رسائی نہیں ہے
تیری آنکھوں میں جو دیکھی
دریا میں گہرائی نہیں ہے

0
51
سرمئی سی شام میں وہ خواب کے سفر میں تھی
محبتوں کا نور تھا وہ خوشبوؤں کے شہر میں تھی
ہونٹ اس کےلال سےگلاب تھے مہکے ہوے
چراغ اس کی آ نکھ کے تھے دیر سے دھکے ہوے
بزم کی ہر ایک شہ اس وجود کے سحر میں تھی
سرمئی سی شام میں وہ خواب کے سفر میں تھی

0
60
تمہارا ساتھ ہے تو روشنی سے نسبتیں ہیں
تمہارے وصل سے پیدا یہ کیسی رفعتیں ہیں
بنے ہیں جو ستارے استعارہ منزلوں کا
تمہاری وسعتوں میں کچھ یہ میری حیرتیں ہیں
تمہارے نقش پا نے جو مرتب کر دیئے ہیں
وہ رستے ہی ہماری جستجو کی منزلیں ہیں

0
118
امید کے شجر پہ کھلے خشک پھول تھے
جو غم کی آ ندھیوں میں بھی صحرا کی دھول تھے
جب جیتے جی وہ شخص مرا ہو نہیں سکا
اگلے جہاں میں وصل کے وعدے فضول تھے
میرا تو ماہ و سال نے چہرہ بدل دیا
تیری نظر میں تازہ گلابوں کے پھول تھے

0
104
غزل۔۔
وہ چھپ بھی جائے تو مجھ کو دکھائی دیتا ہے
خموشیوں میں مجھے سب سنائی دیتا ہے
وہ اپنے ہونٹوں کی ہلکی سی ایک جنبش سے
گل خیال کو کیا کیا رسائی دیتا ہے
وہ اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے میکدوں کے بیچ

0
84
غزل۔۔
یا تو مجھ سے ملا نہیں ہوتا
یا کبھی بھی جدا نہیں ہوتا
تو اگر غیر تھا تو تیرا سخن
نغمہ جاں فزا نہیں ہوتا
تو اگر دیکھتا نہ میری طرف

0
42
مری چاہ تجھ پہ یقین تک مری چاہ وہم و گمان تک
مرا فلسفہ مرا مسئلہ ہے ترے بدن کی کمان تک
ترے جسم و جان کے زاویے رہِ پر خطر تھے مرے لئے
میں قدم قدم پہ لٹاہوں یوں کہ لٹا ہے اگلا جہان تک
مرا تیرنا مرا ڈوبنا ہے تری نظر سے جڑا ہوا
کبھی پہنچا پورے یقین تک کبھی لحظہ بھر میں گمان تک

0
203
غزل..
ہزاروں لوگ ملتے ہیں کوئی تم سا نہیں ملتا
کہیں سیرت نہیں ملتی، کہیں چہرہ نہیں ملتا
مکمل ہوں، بہت خوش ہوں کہ اب اس دل میں جھانکوں تو
تمھارے بِن کہیں کوئی بھی نظٌارہ نہیں ملتا
تمھارے وصل نے کتنا مکمل کر دیا مجھ کو

0
284
غزل۔۔
ساون رت کی پہلی بارش تو اور میں
رم جھم میں جلنے کی خواہش تو اور میں
بادل برکھا ساون رت کا بھیگا گیت
موسم کی یہ گہری سازش تو اور میں
رات کے پچھلے پہر اک بادل کی چنگھاڑ

0
171
غزل۔۔
کبھی جو ملنا حجاب رکھنا
نظر سے جاری خطاب رکھنا
لبوں پہ چپ کے گلاب رکھنا
یہ چہرہ روشن کتاب رکھنا
کبھی نظر سے کبھی سخن سے

0
59