وقت کی رفتار سے یوں ربط پیدا کر لیا |
اپنی ساری زندگی کو میں نے لمحہ کر لیا |
کہکشاں در کہکشاں جس بھی قدر پھیلاؤ تھا |
اس قدر کھینچا کہ اس کو اک تمنا کر لیا |
نیند میں دیکھا اسے اور خواب میں چاہا اسے |
نیند کا وقفہ تھا جس کو ایک دنیا کر لیا |
سوچ کی سب کہکشائیں اور ان ہونٹوں پہ تل |
میری ساری وسعتوں کو اس نے یکجا کر لیا |
آئنے کے سامنے خود میں کھڑا تھا کس طرف |
آئنے کے سامنے خود کو تماشہ کر لیا |
بس، بشیر احمد حبیب! اس وقت بس خاموش رہ |
تو نے تو رو رو کر جہاں میں خود کو رسوا کر لیا |
معلومات