دل میں جو بستے ہوں وہ جایا نہیں کرتے |
کیوں ضد ہے جب علم ہے ایسا نہیں کرتے |
آنکھوں سے، ہاں دو اک چھللک جاتے ہیں آنسو |
جاتے ہوئے کھل کے تو رویا نہیں کرتے |
خوشبو ہو بہت ، پھول مگر وہ نہیں بنتی |
جب مل نہ سکیں یاد بھی آیا نہیں کرتے |
بے وجہ بھی ناخوش ہوں جن بچوں کی مائیں |
ان پر تو شجر تک بھی سایہ نہیں کرتے |
بابا نے پکارا ، پر پہنچا نہیں بیٹا |
ایسا نہیں کرتے بھئی ایسا نہیں کرتے |
کس جبر کے سائے میں تم جیتے ہو احمد |
ماں باپ کی تربت پہ بھی جایا نہیں کرتے |
معلومات