| جب اِلْتِفات اس نے زیادہ نہیں کیا |
| میں نے بھی زندگی کا اعادہ نہیں کیا |
| جب بھی ہنسے تو آنکھ میں آنسو بھی دے دئیے |
| جب غم بڑھا خوشی کو زیادہ نہیں کیا |
| میں منتظر رہوں گا اسے کہہ نہیں سکا |
| اس نے بھی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا |
| پوچھے گئے سوال بھی باہر نصاب تھے |
| اور وقتٍ امتحاں بھی زیادہ نہیں کیا |
| بزم طلب میں یوں بھی اٹھایا نہیں سوال |
| دستٍ عنایت اس نے کشادہ نہیں کیا |
| پرتوٍ جمالٍ یار نے بخشا سرورٍ شوق |
| عشق و جنوں کو ساغر و بادہ نہیں کیا |
| اس کے گلاب ہونٹ مگر میں نے آج تک |
| خوابوں کو زندگی کا لبادہ نہیں کیا |
| یہ رنگ، یہ خیال سخن در سخن رہے |
| اک کشمکش کو زیست کا جادہ نہیں کیا |
| میں اس کا انتظار نہیں کر رہا حبیب |
| وہ جس نے لوٹ آنے کا وعدہ نہیں کیا |
معلومات