جہاں تک گیا خلا سے باہر نہیں گیا
کوئی راستہ فنا سے باہر نہیں گیا
اگر فکر تھی تو خال و خد سے جُڑی ہوئی
کوئی جسم کی فضا سے باہر نہیں گیا
ہے اپنی بقا کی جنگ یہ عاشقی تمام
تو ہم میں کوئی بقا سے باہر نہیں گیا
گو اس دشتِ عاشقی میں لمبا سفر کیا
میں مٹی کی اشتہا سے باہر نہیں گیا
دوا کا نہیں تھا کچھ مرے درد پر اثر
مگر چارہ گر دوا سے باہر نہیں گیا
گو موقع دیا سبھی کو اس شب حسین نے
مگر کوئی کربلا سے باہر نہیں گیا
کبھی جب اُٹھائے ہاتھ ماں نے مری حبیب
تو پھر کچھ بھی اس دعا سے باہر نہیں گیا

0
7