| غزل ۔۔۔۔ |
| کوئی لمحہ نہیں، اس کو سوچا نہیں |
| اک زمانہ ہوا جس کو دیکھا نہیں |
| ایک مدت ہوئی وہ بھی بے چین ہے |
| ایک عرصہ ہوا میں بھی سویا نہیں |
| جو مجھے یاد آتا رہا دم بدم |
| بھول سکنے کا اس کو بھی یارا نہیں |
| لوگ ملتے رہے اور بچھڑتے رہے |
| ایک وہ، ہاں وہی، مجھ سے ملتا نہیں |
| اس کی آنکھوں نے وہ داستانیں کہیں |
| میں نے پلکوں کو تاحال جھپکا نہیں |
| اس شجر پر تو جتنے بھی پھل پھول تھے |
| میرے حصے کے تھے، میں نے جانا نہیں |
| اس کی آنکھوں میں تھی کچھ الگ روشنی |
| چاند تارہ کوئی یوں چمکتا نہیں |
| جو بھی اس نے کہا، جو بھی میں نے کہا |
| وہ بھی جانا نہیں، میں بھی سمجھا نہیں |
| میں حبیب اپنے بارے میں اور کیا کہوں |
| میرے کردار میں کوئی رخنہ نہیں |
معلومات