ہم کسی کے تھے وہ کسی کے تھے
ضبط کے امتحاں سبھی کے تھے
ہر کسی میں ہی ڈھونڈھنا ان کو
اب یہ معمول زندگی کے تھے
وقت بیٹھا تھا ان کے پہلو میں
رات ان کی تھی، دن انہی کے تھے
وہ مخاطب ہوئے تو مجھ پہ کھلا
حرف جتنے تھے، روشنی کے تھے
کھلتے کھلتے بھی کھل نہیں پائے
استعارے جو آگہی کے تھے
کوئی تو مسئلہ تھا ،گھر بھر میں
تم پہ الزام ہر کسی کے تھے
ہائے وہ لوگ جو حبیب نہ تھے
وائے وہ لوگ جو سبھی کے تھے

0
2