| ہم کسی کے تھے وہ کسی کے تھے |
| ضبط کے امتحاں سبھی کے تھے |
| ہر کسی میں ہی ڈھونڈھنا ان کو |
| اب یہ معمول زندگی کے تھے |
| وقت بیٹھا تھا ان کے پہلو میں |
| رات ان کی تھی، دن انہی کے تھے |
| وہ مخاطب ہوئے تو مجھ پہ کھلا |
| حرف جتنے تھے، روشنی کے تھے |
| کھلتے کھلتے بھی کھل نہیں پائے |
| استعارے جو آگہی کے تھے |
| کوئی تو مسئلہ تھا ،گھر بھر میں |
| تم پہ الزام ہر کسی کے تھے |
| ہائے وہ لوگ جو حبیب نہ تھے |
| وائے وہ لوگ جو سبھی کے تھے |
معلومات