ہم پاس تھے مگر کبھی باہم نہیں ہوئے
تصویر میں جو فاصلے تھے کم نہیں ہوئے
یہ زندگی کی جنگ جو ہارے ہیں عمر بھر
یہ اس لیے ہوا کہ وہ ہمدم نہیں ہوئے
ان کی ہنسی بہار ہے، پلکیں اُٹھانا دھوپ
بے اختیار یوں کبھی موسم نہیں ہوئے
اس کے ستم تمام ہنسی میں اڑا دیئے
مشکل میں ہم سپردِ رہِ غم نہیں ہوئے
اب میرا اختیار تو مجھ پر نہیں رہا
جو اس کو اختیار تھے وہ کم نہیں ہوئے
حاصل ہے عمر بھر کا یہ ہستی مری حبیب
قطرہ بنے تو پانیوں میں ضم نہیں ہوئے

0
20