وہ آندھیاں چلیں نقشِ پا نہیں رہا
یادوں کی ٹہنیوں پر پتا نہیں رہا
نظریں چرائے بن وہ گزرا ہے پاس سے
وہ صاف صاف کہہ دوں میرا نہیں رہا
بے حد حسیں لگا تھا وہ چاند رات کو
جب روشنی ہوئی تو ویسا نہیں رہا
جب سے ملے ہیں ہم کو کچھ رابطوں کے ایپ
بزمِ جہاں میں کوئی تنہا نہیں رہا
اب تو جنوں بھی چاہے ہے پاسبانِ عقل
اب عشق بھی تو کافرٍ دنیا نہیں رہا
بس ایک پل میں ہی وہ آگے نکل گیا
میری طرح وہ تھک کر بیٹھا نہیں رہا
کل شام وہ ملا تھا کچھ احترام سے
شاید اسے لگا میں اس کا نہیں رہا
جس کے لیے چمن کو ہم چھوڑ آئے تھے
افسوس آج وہ بھی اپنا نہیں رہا
جب آگہی ملی تو پیارے حبیب کو
پیارا وہ زندگی سے، پیارا نہیں رہا

0
10