| کسی خیال سے بندھے ہوئے تھے ہم |
| سمجھیو مت، یونہی رکے ہوئے تھے ہم |
| پلک جھپکنے تک تماشہ گاہ میں |
| کسی کے دھیان سے اٹے ہوئے تھے ہم |
| خرید لائے تھے جو آ گ کے عوض |
| انہی اندھیروں میں گھرے ہوئے تھے ہم |
| زمین اک مدار کے سفر میں تھی |
| سفر نہیں تھا، بس رکے ہوئے تھے ہم |
| کنارے شام مل رہے تھے دونوں وقت |
| اِدہر اُسی طرح ملے ہوئے تھے ہم |
| کہیں فرشتے سجدہ ریز تھے حبیب |
| کہیں نظر سے بھی گرے ہوئے تھے ہم |
معلومات