روبرو آ کے مرے شکل دکھا دی اس نے
لامکانی کا سفر ،مجھ کو سزا دی اس نے
یہ کوئی طرزِ سیاست تھا کہ یہ حکمت تھی
نہ تو امید کو توڑا نہ صدا دی اس نے
میں نے بھی شاخِ تمنا سے وہی پھل توڑا
تو اسی جرم پہ مجھ کو بھی سزا دی اس نے
خاک بن کر انہی راہوں میں بکھر جانا تھا
جب ہوئے خاک تو پھر خاک اڑا دی اس نے
مہرباں وقت بھی تھا وصل کی شب اور وہ بھی
نیند آئی نہیں اور شمع بجھا دی اس نے
ایک منزل کے مسافر تھے وہ بھی اور میں بھی
خواب سب میرے تھے تعبیر بتا دی اس نے
درد سہنے سے ہی ملتا ہے سراغِ منزل
ضبطِ پیہم میں نئی سمت دکھا دی اس نے
اس سے تھے دور تو نزدیک ہوئے اللہ کے
ہجر کی شب نئی اک جوت جگا دی اس نے
اس مصور کی طرفداریاں مت پوچھ حبیب
جس کو سوچا نہیں تقدیر بنا دی اس نے

0
12