| غزل.. |
| ہزاروں لوگ ملتے ہیں کوئی تم سا نہیں ملتا |
| کہیں سیرت نہیں ملتی، کہیں چہرہ نہیں ملتا |
| مکمل ہوں، بہت خوش ہوں کہ اب اس دل میں جھانکوں تو |
| تمھارے بِن کہیں کوئی بھی نظٌارہ نہیں ملتا |
| تمھارے وصل نے کتنا مکمل کر دیا مجھ کو |
| رہِ دنیا میں کوسوں تک پتا اپنا نہیں ملتا |
| زمانہ ٹھیک سے سمجھا نہیں کارِ محبت کو |
| محبت میں جو سچے ہیں انھیں کیا کیا نہیں ملتا |
| تمہارے سامنے جو لوگ اپنے دھیان میں گم ہیں |
| رہِ الفت میں کوئی اس قدر کھویا نہیں ملتا |
| کسی پیمانِ الفت کو کبھی آ سان مت لینا |
| محبت ترک کرنے پر کہیں یارا نہیں ملتا |
معلومات