ربطِ پیہم کا اس نے راستہ رکھا |
شہر حیرت کا در مجھ پر کھلا رکھا |
زخم دے کر اسے تو لا دوا رکھا |
ضبط میں آگہی کا سلسلہ رکھا |
زندہ رکھی تمنا وقت آخر بھی |
عشق کا حوصلہ جاں سے بڑا رکھا |
ملتے رہنا ہے پر میرا نہیں ہونا |
زندگی نے الگ ہی فلسفہ رکھا |
تم نے تو میرے اتنا پاس آ کر بھی |
قربتوں میں بدن بھر فاصلہ رکھا |
لوٹ جائے نہ وہ پھر سے کہیں مایوس |
میں نے در کو ہمیشہ ہی کھلا رکھا |
میں، حبیب! اس لیے چپ ہوں کہ ہر ہر گام |
وقت نے ایک تازہ سانحہ رکھا |
معلومات