ابھی نظروں سے اوجھل ہیں ابھی وہ سامنے بھی ہیں |
وہ مجھ سے دور ہیں لیکن بباطن رابطے بھی ہیں |
ستاروں کے مکینوں سے ملن دشوار ہے لیکن |
بہت دن سے یہ سنتا ہوں وہاں تک راستے بھی ہیں |
ادھوری بات چھوڑی ہے کہ ملنے کا بہانہ ہے |
جو دل میں ہے وہ کہہ دیتے مگر کچھ سوچتے بھی ہیں |
دو رنگی سی جھلکتی ہے اگر وہ کچھ بھی کہتے ہیں |
کبھی کہہ دیتے ہیں جاؤ کبھی خود روکتے بھی ہیں |
سکوں کی نیند لینے سے یہ وحشت کم نہیں ہوتی |
ہمارے خواب میں گویا کسی کے رتجگے بھی ہیں |
جدائی میں خبر ہے کا قدر دشواریاں ہوں گی |
تجھے جاتا ہوا کس شوق سے ہم دیکھتے بھی ہیں |
سمجھ لو تم بشیر احمد انہیں تم سے محبت ہے |
گلے ہنس کر لگاتے ہیں اگر چہ ڈانٹتے بھی ہیں |
معلومات