| ذرے کی کائنات سے آگے کھڑا تھا میں |
| باہر جو دیکھا ذات سے آگے کھڑا تھا میں |
| اس کی تمام بات میں تھی آگہی مگر |
| ہر آگہی کی بات سے آگے کھڑا تھا میں |
| دکھ کی طویل رات میں سب بے زباں ہوئے |
| دکھ کی طویل رات سے آگے کھڑا تھا میں |
| مٹی میں وہ فریب تھے سب ہی بہل گئے |
| مٹی کے التفات سے آگے کھڑا تھا میں |
| اس کی نمو تھی آگ سے تھی میری خاک سے |
| اور خاک کی ِبسات سے آگے کھڑا تھا میں |
| مجھ کو پکارتے ہوئے عمریں گزار دیں |
| بس ایک طاق رات سے آگے کھڑا تھا میں |
| نظریں جھکی رہیں سدا کاسے کے بوجھ سے |
| کاسہ گرا جو ہاتھ سے آگے کھڑا تھا میں |
| میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا حبیب |
| نکلا میں اپنی ذات سے آگے کھڑا تھا میں |
معلومات