رخ پر کھلے گلاب الگ سے تھے |
خوشبو تو تھی عذاب الگ سے تھے |
سب نے سجا کے رکھے تھے آنکھوں میں |
ہر ذہن میں سراب الگ سے تھے |
کچھ تو سوال بھی تھے بہت مشکل |
اورکچھ ترے جواب الگ سے تھے |
جو مٹ گئے وہی تو نہ مٹ پائے |
دل دنیا کے نصاب الگ سے تھے |
جو ہم نے دیکھے تھے کبھی مل کر ساتھ |
تعبیر اور خواب الگ سے تھے |
سوچا مگر گناہ نہ کر پائے |
اس کے مگر ثواب الگ سے تھے |
مدت ہوئی وہ کچھ نہیں بولا تھا |
چپ میں مگر عتاب الگ سے تھے |
معلومات