اجڑی ہوئی بستی میں ہوا گونجتی ہے
ان دیکھے مکینوں کی صدا گونجتی ہے
خالی کمروں سے بھی آتی ہے صدا
گزرے ہوئے ماضی کی ندا گونجتی ہے
رت بدلی پرندوں نے تو کر لی ہجرت
اب شاخوں میں یخ بستہ نوا گونجتی ہے
کوئی ہے جو چاہے ہے پسِ پردہ یہ
اس کی خواہش مجھ میں سوا گونجتی ہے
ان کو آئینے میں کیا دیکھ لیا
اب میری نس نس میں فنا گونجتی ہے
یہ کس کا سخن ہے جو ہے نغموں میں عیاں
یہ کس کا ہنر ہے کہ فضا گونجتی ہے
ایسی تنہائی کب ہوتی تھی حبیب
اب سانس بھی لینے سے فضا گونجتی ہے

1
16
السلام علیکم-
استاد محترم آپ کا کلام پہلی مرتبہ نصیب ہوا تو خوب ہوا- آپ کے کلام میں جو روانی ہے جو لزت ہے وہ کمال ہے- میرے حق میں بھی دعو گو رہیں کہ کبھی آپ کی طرح چند ایک جملے کہہ سکوں-
اللہ آپ کو صحت زندگی ایمان اور علم سے نوازے-

0