وہ جب گیا تو روشنی بھی ساتھ لے گیا
آنکھوں کا نور، تیرگی بھی ساتھ لے گیا
اب کیسے ہو گی شام ، کٹے گی یہ رات کیا
وہ روز و شب کی تشنگی بھی ساتھ لے گیا
میرے لیے وہ چھوڑ گیا خواب سی تھکن
دیوار پر لگی گھڑی بھی ساتھ لے گیا
آگے ہی بڑھ سکوں نہ میں پیچھے ہی ہٹ سکوں
وہ ربط و ضبطِ آگہی بھی ساتھ لے گیا
اس کے بغیر زندگی بے رنگ ہو گئی
وہ دشمنی بھی دوستی بھی ساتھ لے گیا
میرے لیے وہ چھوڑ گیا رات جاگتی
وہ نیند خواب تیرگی بھی ساتھ لے گیا
اس کے بغیر میں تو کسی کام کا نہیں
جاتے ہوئے مری چھڑی بھی ساتھ لے گیا
کیسے کہوں حبیب اسے دیکھے بنا غزل
وہ حرف حرف چاندنی بھی ساتھ لے گیا

0
4