غزل |
برسوں کے بعد دل میں وہ جذبہ نہیں رہا |
ہم مر مٹے تھے جس پہ وہ چہرہ نہیں رہا |
باتیں تو اس کی آ ج بھی دل کے قریب ہیں |
گھر کر گیا تھا دل میں جو لہجہ نہیں رہا |
اب مجھ میں بندگی کی وہ خواہش نہیں رہی |
تجھ میں بھی بے رخی کا سلیقہ نہیں رہا |
اس کی ہنسی میں صرف فریبِ حیات ہے |
اس کے لبوں پہ پھولوں کا کھلنا نہیں رہا |
اک روشنی تو آ ج بھی اس کی نظر میں ہے |
دل میں اتر سکے وہ اجالا نہیں رہا |
وہ زلف، وہ گھٹا، وہ مرے دل کے ولولے! |
لیکن اب ایسی باتوں کا موقع نہیں رہا |
اس کی نظر میں یوں تو فسوں اب بھی ہے حبیب |
مدہوش کر سکے جو وہ نشہ نہیں رہا |
معلومات