| جیسے جیسے زندگی کی آگہی بڑھتی گئی |
| اس جہانِ کُن میں میری بے بسی بڑھتی گئی |
| دسترس میں آئے ہم تو پھڑپھڑائے تھے بہت |
| دسترس بڑھتی گئی آمادگی بڑھتی گئی |
| آرزو نے ہاتھ سے اس زور سے پکڑا مجھے |
| ہوش سب رخصت ہوئے اور بے خودی بڑھتی گئی |
| رات بھر پہلو سے میرے لگ کے وہ سویا رہا |
| زندگی کے غم سے میری دوستی بڑھتی گئی |
| میر و غالب کا سخن اب طاقِ نسیاں ہو چکا |
| شاعری رخصت ہوئی اور نغمگی بڑھتی گئی |
| دھیرے دھیرے چاند نکلا بدلیوں کی اوٹ سے |
| جیسے جیسے زلف سلجھی روشنی بڑھتی گئی |
| ملتے ملتے زندگی سے ہم وہیں پر آ گئے |
| جس قدر قربت بڑھی بیگانگی بڑھتی گئی |
| عشق کا آغاز تھا وہ شام سی آنکھیں مگر |
| رابطے بڑھتے گئے اور شاعری بڑھتی گئی |
| ذات کی خوشبو الگ اور بات کی خوشبو الگ |
| عمر سے وہ ساتھ تھی پر تازگی بڑھتی گئی |
| میں نے سب وہ جھاڑ دی جتنی زمیں کی گرد تھی |
| پھر خلاؤں کی طرف یہ زندگی بڑھتی گئی |
| شہر سے وہ جب گیا تو حبس کچھ اتنا بڑھا |
| بارشیں برسی بہت اور پھر نمی بڑھتی گئی |
| جیسے جیسے زندگی نے ہاتھ کو جھٹکا حبیب |
| اس کو چھونے کی تڑپ دیوانگی بڑھتی گئی |
معلومات