کبھی احساس یہ ہوا ہی نہیں |
میں جہاں تھا وہاں کا تھا ہی نہیں |
تیری نسبت بھی اِس زمین سے ہے |
تجھ سے مل کر کبھی لگا ہی نہیں |
مجھ کو مطلوب تیری ذات بھی ہے |
چہرے، یہ ارض یہ سما ہی نہیں |
اُس کو توڑا تو یہ کھلا ہم پر |
پسِ دیوار کوئی تھا ہی نہیں |
ان کا سایا ہے سارے عالم پر |
جن کا سایا سنا کہ تھا ہی نہیں |
یوں تو مل آئے ایک دنیا سے |
جس سے ملنا تھا وہ ملا ہی نہیں |
اس کی خوشبو تھی میرے بستر میں |
جانے والا کہیں گیا ہی نہیں |
تو بھی پیاسا ہے ایک مدت سے |
میں نے محسوس یہ کیا ہی نہیں |
تجھے سے مل کر نجانے کیوں یہ لگا |
میں تو خود سے کبھی ملا ہی نہیں |
پڑھ لیا ایک اک صحیفہ حبیب |
دل پر لکھا مگر پڑھا ہی نہیں |
معلومات