صفحہ پلٹیں گے تو کردار بدل جائے گا |
یہ بھی قصہ ہے مرے یار بدل جائے گا |
تلخ لہجوں کو بدل دیتا ہے وہ شیریں سخن |
جب وہ آئے گا تو اظہار بدل جائے گا |
اس کہانی میں کئی موڑ ابھی آنے ہیں |
سو یہ فرمان سرِ دار بدل جائے گا |
ہم بھی ہر بار اسی در پہ چلے آتے ہیں |
جیسے ان کا کہا اس بار بدل جائے گا |
ہو گا مقبول کسی روز کہا میرا بھی |
اور یہ وقت کا معیار بدل جائے گا |
نہ کوئی رستہ رہے گا نہ مسافر احمد |
یہ جو موجود ہے، یکبار بدل جائے گا |
معلومات