دائرے میں اک سفر تھا، انتہا کچھ بھی نہیں
عمر بھر چلتے رہے اور فاصلہ کچھ بھی نہیں
ایسے ظاہر کر رہا تھا وہ ہوا کچھ بھی نہیں
شہر سارا جانتا تھا، اب بچا کچھ بھی نہیں
نور کے ہیں سلسلے یہ چار سو ٹہرے ہوئے
عالمِ ارض و سما اس کے سوا کچھ بھی نہیں
پا لیا جس نے تجھے دونوں جہاں بھی پا لئے
تیرے بن اس زندگی میں جو ملا کچھ بھی نہیں
دائروں میں رقص پر مجبور یہ اجسام سب
اک صدائے کن فکاں اس کے سوا کچھ بھی نہیں
میر و غالب پڑھ لیا اقبال بھی اور فیض بھی
عشق میں اس کے سوا ہم نے کیا کچھ بھی نہیں
عشق میں ہم کو ملیں ہیں نسبتیں کچھ عام بھی
جب سے وہ اچھا لگا اچھا لگا کچھ بھی نہیں
شام نے ڈھلتے ہوئے، کیسے ہو ؟ یہ پوچھا مجھے
لب مرے ہلتے رہے بولا گیا کچھ بھی نہیں
کس قدر سادہ ہو تم پیارے بشیر احمد حبیب
کس طرف جانا ہے کیوں؟ تم کو پتا کچھ بھی نہیں

0
8