مری چاہ تجھ پہ یقین تک مری چاہ وہم و گمان تک |
مرا فلسفہ مرا مسئلہ ہے ترے بدن کی کمان تک |
ترے جسم و جان کے زاویے رہِ پر خطر تھے مرے لئے |
میں قدم قدم پہ لٹاہوں یوں کہ لٹا ہے اگلا جہان تک |
مرا تیرنا مرا ڈوبنا ہے تری نظر سے جڑا ہوا |
کبھی پہنچا پورے یقین تک کبھی لحظہ بھر میں گمان تک |
مرا جسم تجھ سے جدا سہی مری روح تجھ سے ملی ہوئی |
یہ ملن ہے دل سے زبان کا یہ رہے گا دونوں جہان تک |
تری گفتگو کے ردھم پہ تھا مرا اعتبار ٹکا ہوا |
مری شاعری مرا نام تھا ترے نام تیرے نشان تک |
معلومات