مری چاہ تجھ پہ یقین تک مری چاہ وہم و گمان تک
مرا فلسفہ مرا مسئلہ ہے ترے بدن کی کمان تک
ترے جسم و جان کے زاویے رہِ پر خطر تھے مرے لئے
میں قدم قدم پہ لٹاہوں یوں کہ لٹا ہے اگلا جہان تک
مرا تیرنا مرا ڈوبنا ہے تری نظر سے جڑا ہوا
کبھی پہنچا پورے یقین تک کبھی لحظہ بھر میں گمان تک
مرا جسم تجھ سے جدا سہی مری روح تجھ سے ملی ہوئی
یہ ملن ہے دل سے زبان کا یہ رہے گا دونوں جہان تک
تری گفتگو کے ردھم پہ تھا مرا اعتبار ٹکا ہوا
مری شاعری مرا نام تھا ترے نام تیرے نشان تک

0
203