غزل۔۔ |
مری چاہ تجھ پہ یقین تک میری چاہ وہم و گمان تک |
مرا فلسفہ میرا مسئلہ ہے تیرے بدن کی کمان تک |
ترے جسم و جان کے زاویے راہ پر خطر تھے مرے لئے |
میں قدم قدم پہ لٹاہوں یوں کہ لٹا ہےاگلا جہان تک |
مرا تیرنا مرا ڈو بنا ہے تری نظر سے جڑا ہوا |
کبھی پہنچا پورے یقین تک کبھی لحظہ بھر میں گمان تک |
مرا جسم تجھ سے جدا سہی میری روح تجھ سے ملی ہوئی |
یہ ملن ہے دل سے زبان کا یہ رہے گا دونوں جہان تک |
تری گفتگو کے ردھم پہ تھا میرا اعتبار ٹکا ہوگا |
میری شاعری میرا نام تھا تیرے نام تیرے نشان تک |
معلومات