چشم دی روشنی بھی دی اس نے
آب بھی تشنگی بھی دی اس نے
حسن کو بے رخی بھی دی اس نے
عشق کو بے بسی بھی دی اس نے
شاخ در شاخ ساتھ کانٹوں کا
پھول کو دل کشی بھی دی اس نے
دل کو مائل کیا اسی جانب
دل کو پھر بے کلی بھی دی اس نے
درد دے کر تو لا دوا رکھا
ضبط میں آ گہی بھی دی اس نے
جب بھی سوچا حبیب اپنے لیے
اک نئی زندگی بھی دی اس نے

1
10
وااہ وااہ

0