Circle Image

محمد سلیم شہزاد شائم

@Schaim

۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
چشمِ گریاں سے کہو شام کے منظر دیکھے
میری پلکوں پہ اُترتے ہوئے گوہر دیکھے
چشمِ تر دیکھ کے شاید اُسے احساس تو ہو
کس طرح جلتے ہیں دیوار کے اندر دیکھے
خاک ہوجائیں گے ہم ضبط کے شعلوں میں مگر

14
مجھ پر بھی برسوں پہلے آئی جوانی تھی
راجا کسی کا میں تھا میری بھی رانی تھی
دنیا کے درد و غم سے بالکل تھا بے نیاز
میری وہ زندگانی کتنی سہانی تھی
شائم

13
۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
ہر نظر نقشِ غمِ ہجر عیاں کرتے ہیں
ہر نفس نالۂ دل سوز رواں کرتے ہیں
سایۂ شوق میں بے تاب و تپاں رہتے ہیں
رازِ دل گوشۂ خاموشی فغاں کرتے ہیں
عشق بے صبر و سکوں دیدہ بہ در رہتا ہے

11
۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
دشتِ ہجراں میں چراغوں کو جلانے کے لیے
ہم بھی بیٹھے ہیں ہواؤں کو منانے کے لیے
عشق محوِ سفر و عقل بہانے در دست
کوئی تدبیر نہیں راہ میں آنے کے لیے
کافی و قہوۂ تلخی میں تری یاد آئی

11
۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
بُجھ گیا جل کے ، آہ و شیں پر میں
رقص کرتا رہا حزیں پر میں
اپنی دنیا میں خوش ہیں ہم دونوں
چرخ پر چاند اور زمیں پر میں
اشک گُل چیدۂ نگہ ٹھہرے

22
۔۔۔۔۔ نعت ۔۔۔۔
دیدم بہ خواب، چہرۂ انوار، سامنے
لب پر درود، دل میں ہے گلزار، سامنے
آمد صدا بہ عرش ز کہسار، سامنے
باندی قریش را شدہ غمخوار، سامنے
اے آسمان! جھک کہ یہ وہ عرشِ نور ہے

28
آنکھ میں جو پانی ہے
تیری دی نشانی ہے
دوست ساتھ دیتے تھے
بات یہ پرانی ہے
کیا کرو گے سُن کر تم
دکھ بھری کہانی ہے

42
۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔
ہر لفظ تھا سراب، بہ عہدِ وفا چہ شد؟
تو خود فریب دادی و ما را فنا چہ شد؟
ہر شب بہ اشک، چشمِ تمنّا تری رہی
تو بے وفا بہ خواب، دلِ بے نوا چہ شد؟
عہد و وفا و رسمِ محبت فقط فریب؟

30
بات دل کی مرے لب پہ آئی نہیں
جو حقیقت تھی اُن کو بتائی نہیں
بے بسی زارِ دل کی ذرا دیکھئے
چوٹ کھا کر بھی دیتا دُہائی نہیں
دشمنوں سے شکایت کریں کیا سلیم
دوستی دوستوں نے نبھائی نہیں

35
عشق کا جب بخار ہو جاوے
روح تک بے مہار ہو جاوے
پھول خوشیوں کے اُس کو چُبھتے ہیں
درد سے جس کو پیار ہو جاوے
ہم کہاں جیت پائیں گے بازی
دشمنِ جاں جو یار ہو جاوے

36
راز رکھتا ہوں بات رکھتا ہوں
قول دیتا ہوں ہاتھ رکھتا ہوں
کیا ڈرائے گا تُو اندھیروں سے
اپنا سورج میں ساتھ رکھتا ہوں
بھائی چارا ہی دیں دھرم میرا
فرقہ،مسلک نہ ذات رکھتا ہوں

34
کَج ادائی کا درد مار گیا
بےوفائی کا درد مار گیا
اچھا ہوتا کہ غیر ہی رہتے
آشنائی کا درد مار گیا
تیرا شوقِ مزاح پر مجھ کو
جگ ہنسائی کا درد مار گیا

33
۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔
اک شبنمی سا شخص عجب گھات کر گیا
دل میں اُتر کے زخمی مری ذات کر گیا
برگِ خزاں نصیب ، گلابِ خیال شُد
یعنی بہارِ عشق کو آفات کر گیا
گُل ہاے رنگ و نور تھے راہوں میں منتظر

34
کیوں چھلکے مرے پیمانے ہیں
غم ہائے مرا نہ وہ جانے ہیں
تم مہر و وفا کا پیکر ہو
سب قصّے ہیں افسانے ہیں
ہم چاروں شانے چت ہیں ہوئے
کیا تیرِ نظر کے نشانے ہیں

31
شاعری کی کتاب جیسا وہ
خشبو شبنم گلاب جیسا وہ
میری نس نس میں ہے نشہ اُس کا
اک پرانی شراب جیسا وہ
اک نظر دیکھ لے تو دم نکلے
ہائے افراسیاب جیسا وہ

25
کوئی رنج کر، نہ ملال کر
تُو ستم اُٹھا، نہ خیال کر
نہ جواب دے ، نہ سوال کر
مری بے بسی پہ دھمال کر
رُکے میرا دم ، مجھے دے وہ غم
جاں گسل تُو جینا محال کر

28
آغاز لکھ رہے ہیں انجام لکھ رہے ہیں
کس کرب میں گزارے ایّام لکھ رہے ہیں
برسوں کی آشنائی کچھ بھی نہ کام آئی
باہم ہوئے جو سارے ابہام لکھ رہے ہیں
ہم کو نہیں گوارا یک حرف تم پہ یارا
سو سر لئے جو اپنے الزام لکھ رہے ہیں

31
ہم کو دنیا کا مال لے ڈوبا
عیش و عشرت کا جال لے ڈوبا
وقت سے پہلے ہو گئے بوڑھے
شاعری کا وبال لے ڈوبا
مرنا آسان تھا ہمارے لیے
جینے کا احتمال لے ڈوبا

22
فکرِ فردا کو پال بیٹھا ہوں
میں جو شوریدہ حال بیٹھا ہوں
جو بھی قسمت میں ہوگا سو ہوگا
میں تو سکہ اُچھال بیٹھا ہوں
اب تو دشمن بھی پیارے لگتے ہیں
دل سے نفرت نکال بیٹھا ہوں

21
اک خواب کے پیچھے بھاگے ہم
پھر ساری عمر ہی جاگے ہم
بس راہِ حیات میں جکڑے ہوئے
دو سوت کے کچے دھاگے ہم

23
ہم بمشکل سراب سے نکلے
یعنی تیرے عذاب سے نکلے
آج اشکوں کے ساتھ ارماں بھی
دلِ خانہ خراب سے نکلے
اُس نے چھیڑی نہیں غزل میری
سوز کیسے رباب سے نکلے

24
دامن یوں اپنا مجھ سے چھڑانے کا شکریہ
نظروں میں سب کی مجھ کو گرانے کا شکریہ
میں کیسے جی رہا ہوں یہ آ کر کبھی تُو دیکھ
غم کے حوالے کر کے او جانے کا شکریہ
آزادی ءِ قلم ہے نہ آزادی ءِ زُباں
سوچوں پہ میری پہرہ لگانے کا شکریہ

26
مری بہار پہ رنگِ خزاں نہیں ہوتا
چمن جو چھوڑ گیا باغباں نہیں ہوتا
ہوائے ہجر نے مجھ سے وہ کھیل کھیلا ہے
کبھی زمیں تو کبھی آسماں نہیں ہوتا
مرے بدن کا تو ہر پَور پَور چیخے گا
نہ پوچھ درد مجھے اب کہاں نہیں ہوتا

23
جھوٹ سے کچھ مِلا نہیں کرتا
آگ میں گُل کِھلا نہیں کرتا
تم لگاتے نمک ہو کانٹوں سے
زخم ایسے سِلا نہیں کرتا
دشمنوں کا بھی مان رکھتا ہوں
دوستوں سے گِلہ نہیں کرتا

24
چاند تاروں سے بات ہوتی ہے
یوں بسر میری رات ہوتی ہے
عطسہ ءِ شب نِشات ہوتی ہے
مطمئن پھر حیات ہوتی ہے
اِس پہ اتنا بھروسہ آخر کیوں
زیست تو بےثبات ہوتی ہے

25
۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔
عجب صلہ چاہ کا دیا ہے
یہ کیا کیا ہے یہ کیا کیا ہے
وفا کا بدلہ جفا دیا ہے
یہ کیا کیا ہے یہ کیا کیا ہے
دو چار پل بھی نہیں گوارا

26
ناؤ اپنی جلا کے آیا تھا
یعنی سب کچھ لٹا کے آیا تھا
جانے کیسے ٹپک پڑے آنسو
میں تو سارے بہا کے آیا تھا
ہائے پوچھو نہ دردِ رخصت تم
ہنستا چہرہ رُلا کے آیا تھا

25
سانحہ نہیں ، حادثہ نہیں
بھاگ ہوں ترا ، عارضہ نہیں
قید کر نہ فُٹ نوٹ میں مجھے
مَتْنِ خاص ہوں حاشیہ نہیں
کیسے ماپے گا زاویوں میں تُو
دائرہ ہوں میں اور سرا نہیں

24
دلِ برباد کی آفات پہ رونا آیا
مختصر زیست کے صدمات پہ رونا آیا
کل تلک تیری خُرافات پہ رونا آیا
آج اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
سُن منافق تری اوقات پہ رونا آیا
اور مجھ پر کَسی ہفوات پہ رونا آیا

22
رنگ تتلی کے میں چراتا ہوں
تیری تصویر جب بناتا ہوں
جس کے ہاتھوں میں زندگی اور موت
اُس کے در پر ہی سر جُھکاتا ہوں
مجھ سے احساس کا نہ مطلب پوچھ
ہر دُکھی کو گلے لگاتا ہوں

26
جب جنوں عقل پہ چھائے تو غزل کہتے ہیں
ہوش جب ہوش اڑائے تو غزل کہتے ہیں
اُن کی یادوں کا برستا ہوا ساون بھادوں
آگ تن من میں لگائے تو غزل کہتے ہیں
رات کے پچھلے پہر دل کے نہاں خانے میں
کوئی چُپکے سے جو آئے تو غزل کہتے ہیں

22
حادثوں نے ہی مجھ کو پالا ہے
روپ رنگ اس لیے نرالا ہے
اُس کی چُپ نے بتا دیا تھا صاف
داغ دامن پہ لگنے والا ہے
کچھ تو اپنی زُباں دراز کرو
کیوں پڑا لب پہ تیرے تالا ہے

21
سوگواروں کی بات سنتا جا
دل فگاروں کی بات سنتا جا
جَھیل جاتے ہیں کیسے دریا کو
دو کناروں کی بات سنتا جا
دیکھ آئے ہیں بام پر ملنے
چاند تاروں کی بات سنتا جا

12
غم سے نباہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
خود کو تباہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
راہِ وفا میں اپنی لٹا کر متاعِ زیست
بس آہ آہ کر کے جئے جارہا ہوں میں
مجھ کو کہیں فرشتہ نہ بیٹھیں سمجھ یہ لوگ
قصداً گناہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں

19
تم وجہہ سکوں شام و سحر ہو تو مجھے کیا
تم راحتِ جاں قلب و جگر ہو تو مجھے کیا
میری تو شب و روز اندھیروں میں ہے گزری
تم زہرہ جبیں رشکِ قمر ہو تو مجھے کیا
رو دھو کے وَلے میں نے یہ جیون ہے گزارا
اب تیرا نہ گزرے نہ بسر ہو تو مجھے کیا

13
پاک و بھارت کی جان ہے اُردو
دونوں دیسوں کی شان ہے اُردو
شہد سے بھی زیادہ میٹھی لگے
کتنی شیریں زبان ہے اُردو
عطر آگیں اِسی نے ہم کو کیا
مُشک ہے زعفران ہے اُردو

26
کرتا رہا ہے مجھ سے وہ فنکاریاں بہت
چہرہ بدل بدل کے اداکاریاں بہت
اچھا ہوا وہ شخص مجھے دے گیا دغا
آسان کر گیا مری دشواریاں بہت
صیاد تیرے دام میں اب آؤں گا نہیں
تُو نے بھی مجھ سے کر لیں ہیں ہشیاریاں بہت

13
سکون دل کو بہت ہے کوئی ستائے مجھے
غموں کی آگ لگا کر کوئی جلائے مجھے
ستم تو یہ ہے ستم گر ستم نہیں کرتا
خوشی سے اوب گیا دل کوئی رُلائے مجھے
بنے ہیں جان کے دشمن ، جنون اور خرد
میں کس کی آئی مروں گا کوئی بتائے مجھے

12
آپ کیا مل گئے دو جہاں مل گئے
چاند، تارے،زمیں، آسماں مل گئے
زندگی زندگی سی ہے لگنے لگی
آپ سے ہم کو جو مہرباں مل گئے
بے صدائی تھی الفاظ گم تھے کہیں
آپ بولے تو حرف و بیاں مل گئے

13
بچپن سے سیدھا میں تو بڑھاپے میں آ گیا
میرا نصیب میری جوانی کو کھا گیا
خورشید بن کے چمکا تھا میں بامِ آرزو
افسوس وقت مجھ کو بھی سایہ بنا گیا
ساقی نے زہر دے کے کہا، جام نوش کر
مجھ کو بھی میکدے کا یہ دستور بھا گیا

27
ہوتا رہا ہر روز مرے ساتھ تماشا
جیون ہے بنا کھیل مری ذات تماشا
جس جس پہ بھروسہ تھا ملا اُس سے ہی دھوکہ
جس ہاتھ کو تھاما تھا وہی ہاتھ تماشا
ہر بات پہ کیوں مانگتا پھرتا ہے وضاحت
لگتی ہے اُسے کیوں مری ہر بات تماشا

47