۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔ |
زیرِ لب اک داستاں کی ترجمانی اور ہے |
خامشی میں گفتگو کی رازدانی اور ہے |
ظاہری افکار سے دل کب ہو روشن اے سلیم |
نورِ فکرت کی تجلی آسمانی اور ہے |
قاف و نون و عین کی تفصیل جو ہم پر کھلی |
حرف کی نسبت وہاں کی لن ترانی اور ہے |
جاں گسل دنیا کو کہتے ہیں وہی جو کچھ نہ تھا |
ہست کی اس واہمہ میں بے زبانی اور ہے |
شعر میں جب سوزِ عرفاں ہو شریکِ فکرِ دل |
حسن کی پھر ایک صورت لامکانی اور ہے |
خاک میں پنہاں ہے وہ سجدہ کہ جس کے راز سے |
عرش کی بھی فخر کرتا پاسبانی اور ہے |
ہم نے بھی کچھ خواب دیکھے کرب کے آئین میں |
یعنی ہر تصویر میں اک نو نشانی اور ہے |
نامۂ دل کا ورق کہتا ہے شائم سُن ذرا |
ہر سخن کے پیرہن میں اک معانی اور ہے |
شائم |
معلومات