۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
جب ضبط کے رستے میں شوالے نہ رہیں گے
پھر اشک بھی پوجا کے حوالے نہ رہیں گے
خورشید کو گہنوں میں چھپا لائی ہے شبنم
اب صبح کے دامن میں اُجالے نہ رہیں گے
ایّام کی تطہیر میں جلتا رہا باطن
اب حشر تلک داغ کے چھالے نہ رہیں گے
واعظ، نہ دکھا ترکِ جنوں کا یہ صحیفہ
زہاد کے افکار میں ہالے نہ رہیں گے
حالات کے دربار میں ہم خندہ زنیں تھے
اب دیکھتے ہیں وقت کے تالے نہ رہیں گے
تحریر سے ہو جائے گی جب خواب کی ہجرت
کاغذ پہ بھی افسانے نرالے نہ رہیں گے
شائمؔ وہ جو تکتے تھے ہمیں وقت کے پتھر
اب ان کی نگاہوں میں بھی جالے نہ رہیں گے
شائم

16