| ڈوب کر مرنے سے تو بہتر ہے کہ پانی سے نکل |
| خواہشوں کے بحر کی اس کرانی سے نکل |
| آ گ سے ڈھالے گئے ! آغاز تھے پانی سے ہم! |
| راز سب کھل جائیں گے اک بےمکانی سے نکل |
| تُو فنا ہو جائے گا اک خوش ادا کے نام پر |
| سوچ کی اس راجدھانی، رایگانی سے نکل |
| اس سے پہلے کہ ترا کردار زنگ آ لود ہو |
| تُو بدل دے اس کو یکسر یا کہانی سے نکل |
| جس کے ہاتھوں لٹ گیا مَیں وہ تو کوئی اور تھا |
| کم سے کم اس عمر میں اس خوش گمانی سے نکل |
| فیصلے دل کے چلیں ہر زخم ہو نوحہ کناں |
| اس وطن کو چھوڑ ایسی راجدھانی سے نکل |
| غالب و اقبال پڑھ لے، میر بھی اور فیض بھی |
| شاعری کی سمت آ جا خوش بیانی سے نکل |
| وقت کی قدغن ہے پیارے رازِ ہستی جان لے |
| سوچ کے اس دشت کی تو لامکانی سے نکل |
| بارشیں سب کے لیے ہیں اور صبا سب کے لیے |
| میں الگ ہوں تُو الگ ہے اس کہانی سے نکل |
| ہجر میں بھی وصل کی لذت کا لپکا ہر گھڑی |
| تُو بشیر احمد حبیب اس خوش گمانی سے نکل |
معلومات