| میں کون ہوں ہر کوئی یہ پوچھتا ملا |
| اُس گلی میں جو ملا وہ گمشدہ ملا |
| وہ نورِ فلک جب سے مری خاک میں ملا |
| اک آسماں کا خاک کو پھر مرتبہ ملا |
| وہ غائب تھا اور مجھے ملنا بھی تھا ہر طور |
| اس جستجو میں بیچ کا وہ رابطہ ملا |
| اس آرزو کے دشت میں منزل نہیں ملی |
| ہر راستے کے بعد بھی اک راستہ ملا |
| جب روشنی ملی تو اس واقعے کے بعد |
| اپنا پتہ ملا نہ ہی اس کا پتہ ملا |
| سب ان سنا کیا تو پھر آواز وہ سنی |
| واپس مڑا ہی تھا کہ میں پتھر ہوا ملا |
| جب کہکشاں در کہکشاں تھا دائروں کا رقص |
| ان دائروں کا مجھ کو بھی اک سلسلہ ملا |
| وہ جب بھی مجھے ملا نئے رنگ میں ملا |
| اس شخص سے میں مرحلہ در مرحلہ ملا |
| دل سے لگا کے رکھ جو بھی ملا حبیب |
| اس بے وفا کا کیا ہے وہ ملا کہ نہ ملا |
معلومات