دل میں وہ درد اٹھا آخر شب
تو بھی درماں نہ ہوا آخر شب
وہ بھی خوشبو میں ڈھلا آخر شب
میں بھی پھر میں نہ رہا آخر شب
دل سرائے میں ہے تنہا روشن
تیری یادوں کا دیا آخر شب
تیری یادوں کو بھگو دیتی ہے
جب بھی برسی ہے گھٹا آخر شب
مجھ کو مجھ سے ہی ملانے کے لیے
کوئی دیتا ہے صدا آخر شب
دن کو بے چین کیے رکھتا ہے
درد بنتا ہے دوا آخر شب
اس سے پہلے کے یہ منظر بدلے
ایک الفت کی نگہ آخر شب
تم کو معلوم نہیں بارش میں
چاہ ہوتی ہے سوا آخر شب
ہر اک آہٹ پہ ترے دھوکے میں
ہر دریچے پہ گیا آخر شب
روبرو آکے مرے بیٹھ گیا
اس کو یوں یاد کیا آخر شب
اپنا یہ گھر رہے یوں ہی قائم
اک طلب ایک دعا آخر شب
اک دریچہ تو کھلا ہوتا حبیب
اب کہاں جائیں بتا آخر شب

0
16