| تمنا یوں مچلتی ہے کہ دنیا بھول جاتے ہیں |
| پھر اک دن یوں بھی ہوتا ہے تمنا بھول جاتے ہیں |
| یہ اپنی ڈالیوں سے ٹوٹ کر بکھرے ہوئے کچھ پھول |
| دیارِ غیر میں اک دن مہکنا بھول جاتے ہیں |
| نہیں ہے یاد تک ان کو اب ان گودوں کی حدت بھی |
| کہ جن میں بیٹھ کر بچے یہ دنیا بھول جاتے ہیں |
| جسے بس دیکھ لینے سے یقیں آتا تھا یہ ہم ہیں |
| اک ایسا وقت آتا ہے وہ چہرہ بھول جاتے ہیں |
| وطن سے دور آئے ہم تو پھر کچھ کچھ سمجھ آیا |
| شگوفے شاخ سے ٹوٹیں تو کھلنا بھول جاتے ہیں |
| ترے پیکر یہ مٹی کے ٹھکانے بھول جاتے ہیں |
| کہ جن قریوں سے آتے ہیں وہ رستہ بھول جاتے ہیں |
| تمہارے پیار سے کم تر سبھی رشتے ہیں دنیا میں |
| تمہارے سامنے ماں ہم یہ کہنا بھول جاتے ہیں |
| جو خوش رہنا ہے جیون میں تو بھولو ہر تمنا کو |
| تمہاری مان لی بابا لو اچھا بھول جاتے ہیں |
| خزاں رت میں اگر پتے بچھڑ جاتے ہیں شاخوں سے |
| ہوا کا رزق بنتے ہیں ٹھکانہ بھول جاتے ہیں |
| بشیر احمد تمہیں گھر لوٹنا ہے شام سے پہلے |
| سفر میں رات ہو جائے تو رستہ بھول جاتے ہیں |
معلومات