Circle Image

Muhammad Maaz Waqar

@maazwaqar

راتیں کیسے کَٹیں تیرے جانے کے بعد
آئیں نیندیں نہیں تیرے جانے کے بعد
ایک یلغار ہے میرے مابین میں
کتنی جنگیں چِھڑیں تیرے جانے کے بعد
اپنا ہوشوں سے بھی واسطہ چُھٹ گیا
کیا فلک کیا زمیں تیرے جانے کے بعد

0
6
تری عادتوں کا پتا نہیں
مجھے چاہتوں کا پتا نہیں
تو گیا تو ایسا گیا کہ اب
مجھے راحتوں کا پتا نہیں
مرا حال مجھ کو دکھا ذرا
مجھے آئینوں کا پتا نہیں

0
5
ہجر کے یہ ایام مبارک
ہم کو یہ آلام مبارک
پھر سے رات ہے روتے گزری
پھر سے اجڑی شام مبارک
ہم بس اب اک یاد ہیں تیری
ہم کو یہ انجام مبارک

23
کبھی تو ظالم پہ کڑکے بجلی
کبھی تو ظلمت کا خاتمہ ہو
گرے کبھی تو محل یہ عالی
کبھی خدا کا بھی آسرا ہو

0
9
چلو اب رات ہے کافی
چلو اب سو گیا ساقی
چلو گھر کو نکلتے ہیں
نہیں ہیں جام اب باقی
چلو گھر کو نکلتے ہیں
چلو جھومے ہی چلتے ہیں

0
23
گفتگو ہم سے بھی کوئی خدارا تو کریں
یوں ذرا دیکھ کہ دل کو سہارا تو کریں
چل پڑیں ہیں بنا آہٹ کے نا جانے کدھر
بیٹھیے بھی ذرا ہم کو گوارا تو کریں
جن سے روٹھے ہیں ذرا ان کا معلوم کریں
آئیے ان مے کدوں کا بھی نظارہ تو کریں

0
18
بات اب دل کے ہاتھوں میں نا رہی
کہ شناسائی آنکھوں میں نا رہی
کون پھر وعدیں یاد دلاتا
بات وہ اب کی باتوں میں نا رہی
نوچ ڈالو کہ لالہ زار بہے
آتشِ خون اشکوں میں نا رہی

0
22
بے کار کواڑوں کو مقفل رکھا
بے جان چراغوں کو مشعل رکھا
وہ جا چکا پھر جس کی خاطر ہم نے
دل کو اسکی یاد سے بوجھل رکھا
یہ آنسو میرے اور بارش گویا
یکساں میرے پورا بادل رکھا

0
21
ہے عہد و وفا سے کوئی عار نہیں
پر ٹوٹا تھا یہ دل بس اک بار نہیں
دستک کو بھلانے کا سوچا تھا مگر
باہر جو کھڑا ہے وہ فقط یار نہیں
تسکینِ غمِ دل ہے تجھے چاہوں صرف
عشقِ لا حاصل سے مجھے خار نہیں

0
21
اس شام سے لے کر قصے کچھ
ان درد و الم کے حصے کچھ
ایک اور فسانہ لکھ بیٹھا
کچھ روگِ جہاں اور جزبے کچھ
کچھ ایسے بھے تھے لفظ لکھے
تھے جن کو دیکھے روئے کچھ

0
22
میرے نزدیک وفاؤں کی حمایت نا کرو
ہیں جو افسردہ تمناؤں کی چاہت نا کرو
ہم تو بے چین رہے شب میں اسیروں کی طرح
گفتگو ہم سے کسی خواب کی بابت نا کرو
دیکھو سمٹی وی پڑی ہیں یہاں بے چینیاں غم
میرے کمرے کے بکھرنے کی شکایت نا کرو

0
27
ہم جو بے چینیوں میں ہی مارے گئے
عشقِ ممنوں کے ہاتھوں ہی ہارے گئے
ہم پہ راہِ الم کُھل چُکی اس قدر
رات ویرانوں میں ہم پکارے گئے
ہم کو فہرستِ اہلِ جنوں میں لِکھو
ہم بھی دنیا میں آکر ُاجاڑے گئے

1
61
مری عرضِ محبت سن میں لکھنا بھول بیٹھا ہوں
مقامِ عشق میں آگے میں بڑھنا بھول بیٹھا ہوں
مری عمرِ رفاقت ہے فقط اک کھیل کی مانند
جو اب ڈرتا ہوں دنیا سے تو مرنا بھول بیٹھا ہوں
مری راتوں سے یہ یاری فقط تیری وجہ سے ہے
جو تیری یاد میں ڈوبا تو سونا بھول بیٹھا ہوں

0
55
اپنی سوچوں سے گر ہم با خبر ہوتے
خود کی طرح نا ہوتے جانے کدھر ہوتے
بے سر و ساماں اس وادیٔ وحشت میں
پھر رہے ہوتے ایسے کہ جیسے گھر ہوتے
اپنے بے چین خیالاتوں کی جہنم میں
کچھ بے سطر سے اسباقوں کی نظر ہوتے

28
یہ زندگی تیرے نام کرکے
میں اپنی شامیں تمام کرکے
وجودِ ہستی مٹا رہا ہوں
میں ہجر کے قصے عام کرکے
چلو کہیں کو ہیں کھو نکل تے
یہ ذات اپنی بے نام کرکے

2
138
اے عشق یہاں مت رُکنا تم
اے عشق یہاں مت جُھکنا تم
اے عشق یہاں اِن کوچوں میں
ہیں پہلے جیسے لوگ کہاں
اے عشق یہاں پر راتوں میں
ہے تیرا آہ و سوگ کہاں

1
66
اب وہ کوچے نہیں اب وہ بستی نہیں
اب وفائیں یہاں پر پنپتی نہیں
دل دھڑکتا نہیں سانس رکتی نہیں
اب کوئی بات دل میں ہے چھبتی نہیں
اب تو بکتا ہیں سب راہ و بازار میں
اب وہ جادو کہاں کوچۂ یار میں

57
سنا ہے اب تک زمانے سارے
وہ گونجتے سے ترانے سارے
کہیں پہ مشہور ہیں ابھی تک
جو گم تھے میرے فسانے سارے
سنا ہے بازار میں ابھی تک
ہیں خواب بکتے سہانے سارے

62
میں نے فرض کیا کل رات بہت
بکھرے تھے کچھ جذبات بہت
یہ فرض کیا تو میری ہے
پھر یاد کیے لمحات بہت
یہ فرض کیا کے میں اب بھی
یوں ہنستا ہوں بے بات بہت

51
یہ باغِ حسرت کے پھول پودے
ہیں پوچھے تجھ سے کہاں گئے تھے
سفر جو ہم نے شروع کیا تھا
اسے یوں چھوڑے کہاں گئے تھے
یہاں سے رستے الگ ہمارے
یہ مجھ سے کہہ کے کہاں گئے تھے

0
59
تم سامنے نا آنا
ہیں زخم ابھی یہ تازہ
تم سامنے نا آنا
مرہم نہیں زیادہ
تم سامنے نا آنا
میں جی اٹھوں گا پھر سے

0
69
جو بھی سنسان راہوں میں
کھڑا ویران ہو دکھتا
جو بھی اس بزمِ دنیا کو
بس اک اندھیر ہے لکھتا
کہ جس کی مسکراہٹ میں
اداسی چھائی رہتی ہے

0
120
مجھے روز ہنسنا عذاب ہے
یونہی خود سے لڑنا عذاب ہے
مجھے بکھرا بکھرا ہی رہنے دو
کہ بکھر کے جڑنا عذاب ہے
مجھے آئینوں سے گلا نہیں
مجھے خود کا دکھنا عذاب ہے

0
59
ہے حالِ دل یہ کہ حالِ دل میں
مٹا رہا ہوں چھپا رہا ہوں
میں زندہ رہ کر میں زندہ رہنا
دکھا رہا ہوں سکھا رہا ہوں
میں رنجشوں کا گلا کروں اور
انہیں کو دل سے لگا رہا ہوں

0
76
ترے اس شہرِ ظلمت کے
یہ دیوانے کہاں جائیں
کہ جن کو بھول بیٹھے تم
وہ پہچانے کہاں جائیں
ہیں اب مے خانے پر تالے
تو اب تم خود ہی بتلاؤ

0
82
میں جو ہوں خزاؤں کا آشیاں
مری اجڑی اجڑی ہیں بستیاں
وہاں ایسی کوئی بہار ہو
مری ذات میں تو شمار ہو
وہ شمار ایسا شمار ہو
مری ہر نسوں میں خمار ہو

0
36
اک زمانہ لگا زخم بھرنے میں اب
گویا آسانیاں ہیں بس مرنے میں اب
گرد آلود ہیں سسکیاں اب مری
مشکلیں پڑ رہیں آہ کرنے میں اب
کھو چکا وقت کی ساری سدھ بدھ میں یوں
دن گزر جاتا ہے شب بسرنے میں اب

0
62
مَری بربادیاں اکثر
یہ مجُھ سے پوچھ لیتی ہیں
کہ تُْو ویرانیوں سے اب
غَموں کی وادیوں سے اب
جِھجھَکنا چھوڑ بیٹھا ہے
کیوں ڈَرنا چھوڑ بیٹھا ہے

0
53
جو اسکی یاد لے آئیں، وہ لمحے اب نہیں آتے
پر اسکی یاد آ جائے، تو آنسو ڈھل نہیں پاتے
تری گلیوں سے نکلے تو، ہمیں دنیا دکھی اپنی
جاں ہم گھر سے مہ خانہ، اور میخانے سے گھر جاتے
گئے وہ پل جہاں پر ہم، انہیں ہر روز ملتے تھے
مگر اب دکھ بھی جانے پر، انہیں ہم دکھ نہیں پاتے

0
68
کبھی آنا تو ساتھ اپنے
خزاؤں کو لیے آنا
لے آنا خاک زاروں کو
دوانوں کو لیے آنا
وہ ظلمت کی جو چلتی ان
ہواؤں کو لیے آنا

0
2
84
سنو اچھا نہیں ہوتا
کہ ہم کو بھول جاؤ تم
کہ ہم کو یاد آؤ تم
تمہیں نا یاد آئیں ہم
سنو اچھا نہیں ہوتا
تمہارا یوں مکر جانا

0
104
وہ جو رستوں کی منزل تھے
وہی ٹھہرے لا حاصل اب
وہ جو میرے مسیحا تھے
وہی نکلے ہیں قاتل اب

0
78
کوئی دور کھڑا دکھتا ہے تو لگتا ہے کہ تم ہو
کوئی آنسو ٹپکتا ہے تو لگتا ہے کہ تم ہو
دیکھو میرے روگ کی فہرستوں میں ہو تم
کوئی رنج و غم اٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ تم ہو
تمہیں بھولنے کی ہم نے تگ و دود کی اتنی
کوئی یادوں سے مٹتا ہے تو لگتا ہے کہ تم ہو

0
81
اے کاش کے کچھ پھر ایسا ہو
میں جو فرض کروں بس ویسا ہو
مرے نام پہ تو پھر کھو جائے
اشکوں سے چہرہ دھو جائے
مری یاد میں تجھ کو درد اٹھے
ترے دل سے آہیں سرد اٹھے

0
83
زندگی سے اب گلا کون کرے
اب یوں بچھڑ کے ملا کون کرے
دنیا کو کب فرق پڑتا ہے کوئی
دنیا کو اب مبتلا کون کرے
تیری اداؤں پہ سب مرنے لگے
مرنے پہ میرے مرا کون کرے

0
73
تنہائیوں میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا
چپ چاپ ہی گر مر جاتے تو اچھا ہوتا
میرا رک جانا پھر سے مجھے لے ڈوبا ہے
بس سر جھکا کر یوں گزر جاتے تو اچھا ہوتا
آلام کو بھی تھوڑا رحم آ ہی جانا تھا
بس تھوڑی دیر ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا

0
75
آرزو یہ بھی تھی کے مجھے تنہائی لے ڈوبے
رو جاؤں اتنا کہ مجھے رسوائی لے ڈوبے
میں کبھی بیٹھ کہ پھر اپنے مرہم سے کھیلوں
اور مجھے اپنے زخموں کی گہرائی لے ڈوبے
تو مجھے دیکھے اور میں اک قرضے میں آجاؤں
اور مجھے اس قرضے کی بھر پائی لے ڈوبے

0
56
تیری تکنا راہیں میں چھوڑ دوں؟
تیرے راستے کی جو گرد ہے
وہ جو تیرے پیروں پہ لگتی ہے
اس پہ رشک کرنا بھی چھوڑ دوں؟
میں رقابتیں ساری توڑ دوں؟
میں جو ہوں شکستہ لہو لہو

0
56
کہنے کو الفاظ کہاں اب
ان پروں میں پرواز کہاں اب
کاش کہ میں سن پاتا خود کو
میری ہے آواز کہاں اب
میرے نام پہ تو مسکائے
میرا یہ اعجاز کہاں اب

0
33
خوب میں نے بھی حماقت کی ہے
اک انساں سے رفاقت کی ہے
جو ملا ہی نہیں کیا غم اس کا
رنج میں گویا خیانت کی ہے
ہنس پڑا میں پھر یوں سرِ بازار
جیسے خود سے بغاوت کی ہے

0
51
کس کو بتاؤں میں مدعے اپنے
ساتھ کوئی ہوتے کھڑے اپنے
کوئی تو ابرِ کرم برسا دے
ریگستاں سے ہیں سمے اپنے
اک دو سے آگے نا بڑھ پایا
بیٹھ کے میں نے گنے اپنے

0
70
عمر بھر میں خود سے خفا رہا
سارے اپنے آنسو چھپا رہا
ترک سے تعلق کی طرح اک
نیند سے میں ہر شب جدا رہا
زندگی بسر کرنے کے لیے
عمر بھر میں خود کو تھکا رہا

0
44
میں خود کو تمہارا لکھ بیٹھا
کیا جھوٹ خدارا لکھ بیٹھا
وہ سب جو کہنا تھا تم کو
اشعار میں سارا لکھ بیٹھا
اپنی ہی اک دنیا بنا کر
میں ساتھ تمہارا لکھ بیٹھا

0
50
وحشتِ دل کے حالات دیکھ تو لیں
میرے بھی ہیں سوالات دیکھ تو لیں
کب تلک اَن کہے لفظوں میں رہوں گا
میرے دل کے مقالات دیکھ تو لیں
اجڑے لوگوں سے الجھن کو مانا مگر
میرے ویراں مکانات دیکھ تو لیں

0
454
یہ ہی زندگی کی تھی جستجو
میں مرا پڑا ہوں لہو لہو
کہ کوئی پلٹتا نہیں یہاں
جو گیا وہ لے گیا آرزو
مجھے ان اندھیروں کا بخشو لطف
میں نے رات سے کی یہ گفتگو

0
86
دیتے کیوں آواز نہیں اب
میرے کیوں ہمراز نہیں اب
اب تو شکوہ کچھ ایسا ہوتا
رہتا میں ناراض نہیں اب
میں خود سے ہی لڑ بیٹھا ہوں
خود کا ہی ہم آواز نہیں اب

0
66
لو نیند سے بیدار ہو گیا ہوں
پھرسے میں اداکار ہو گیا ہوں
خوابوں میں بھی ہم اب کہاں ہیں ملتے
میں اُن سے بھی بیزار ہو گیا ہوں
خود کے پلّے بھی اب نہیں ہوں پڑتا
میں اور بھی دشوار ہو گیا ہوں

0
108
شاید اسکو بھی کبھی میرے خیال آتے ہوں
خوابوں میں شاید ہم گلے مل جاتے ہوں
شاید اس نے بھی کبھی داد دی ہو غزلوں کو
شاید آج تلک شاعر اسے دہراتے ہوں
شاید اس نے بھی مسکرا کر دیکھا ہو کبھی تو
شاید آج بھی یہ احسان وہ جتلاتے ہوں

0
47
یونہی آلامِ ہجرِ جاں میں مجھے رہنے دو
میں کہہ چکا جو باتیں دوبارہ سے کہنے دو
یہ رگ و جاں بھی مجھ سے آزادی چاہ رہے
یہ خون جو میرا بہہ رہا ہے اسے بہنے دو
یہ زخم بچھڑ جائیں گے گر مرہم جو لگا
یہ ہی تو وفا دار ملے انکو یہیں رہنے دو

0
56
کیوں کروں غم کی میں پھر اشاعتیں اپنی
آ چکی ہیں راس یہ اذیتیں اپنی
کب کہا میں نے کہ گلہ ہے مجھے کوئی
پاس رکھیے آپ یہ وضاحتیں اپنی
کرنا یہ کوشش کہ رستے میں نا ملیں ہم
کچھ ہیں بہت بے وفا روایتیں اپنی

0
71
خواہشیں دل کی میری مر نا جائیں کہیں
آپکے آتے آتے بکھر نا جائیں کہیں
آپکی نظروں نے عمریں جو مجھے بخشی تھیں
رابطوں سے پہلے وہ بسر نا جائیں کہیں
محفلیں جام کی میری بکھری رہنے دو
آپکے آ جانے سے سنور نا جائیں کہیں

0
60
روز و شب کی دعا تھے پہلے
ہر اک ادا کی صدا تھے پہلے
عرصے سے کچھ دیکھا نہیں ہے
وہ ہی تو میری نگاہ تھے پہلے
یکسر کیوں اسے برا میں سمجھوں
وہ بھی اہلِ وفا تھے پہلے

0
45
وحشتِ دل یہ کئی آلام لیے پھرتی ہے
دوں کیا نام اسے یہ کئی نام لیے پھرتی ہے
جانے کتنے اندھیر میں رہتی ہو گی وہ صدا بھی
جو میرے اس دل کا پیام لیے پھرتی ہے
تک تک کر یہ اندھیرا اس قابل میں بنا ہوں
چشم یہ ویرانی کا سلام لیے پھرتی ہے

0
60
پتھر کی آنکھ سے بھی آنسو چھلک پڑے
میرے فسانے کے جو کاغذ ڈھلک پرے
یہ ہجر تمہیں کتنا آسان لگتا ہے
میری زمیں پہ گویا آکر فلک پڑے
دن رات جھیلنا غم ہر روز اس طرح
مر جائیں گے اگر ہر سو یہ سڑک پڑے

0
49
فرض کرو ہم دونوں اب بھی خوش رہتے ہوں
تیری یاد میں یہ آنسو نہیں اب بہتے ہوں
فرض کرو میں ویسے ہی اب تک ہنستا ہوں
سو جاتا ہوں شب کو اندھیرا نہیں تکتا ہوں
فرض کرو ہم اب تک گیت اپنا گاتے ہیں
سنکر جسکو یہ آنسو مرے اب بہہ جاتے ہیں

0
101
جو آپ کو دِکھ نا پائیں تو میری تھوڑی خبر لینا
آپ تو شانِ محفل ہیں تھوڑا سا اور سنور لینا
میں جس لمحے سناؤں گا کچھ حال یہ اپنا یاروں کو
تم میرے سامنے اس پل تھوڑا سا اور ٹھہر لینا
یہ روئی سی میری آنکھیں ہیں ان پہ تھوڑا رحم کرو
میں سنگدل کا جو حال بتاؤں تو تھوڑا اور مکر لینا

0
57
آج پھر عاشقی تمام ہوئی
پھر سے رسوائی سرِ عام ہوئی
آج پھر آ گئے وہ رو برو یوں
آج پھر آنکھیں ہمکلام ہوئی
اپنی پرہیزی پر فخر تھا بڑا
طلب اسکی نظر کی جام ہوئی

0
80
امتحاں ہی لیں گے اس خاکسار سے کیا
زندہ دلی کی امید ہے بے زار سے کیا
ہم تو اپنے آپ سے بھی ہیں رہتے روٹھے ہی
چاہتے ہیں آپ چین خار زار سے کیا
کیوں نگاہیں ملا لیتے ہیں وقتاً فوقتاً
ملتا ہے مرے جی کے انتشار سے کیا

0
54
بس وہی ہجرِ جاں کے غم ہیں
اس سے ہی آنکھیں نم ہیں
اس ویران سے کمرے میں
خوشیاں ساری بے دم ہیں
وہ ہمیں دیکھتے تو ہیں مگر
نظریں ملتی ذرا کم ہیں

0
61
جہاں پر تھے جام بھی نا کافی
تیرا دیدار واں تھا کافی
جو نظریں ہوئی تھی چار اِک پل
تھا شور اِس دل میں مچا کافی
اٹھتے نا وہ میرے تذکرے پر
تھی مجھے اتنی سی وفا کافی

0
62
زندہ بھی ہوں میں یا بس سانسیں ہی چلی ہیں
خوشیوں کی میرے باغ میں کلیاں نا کھلی ہیں
کتنے شور سے محفلِ دنیا یہ رواں ہے
جیسے ہر غم کی یہاں بس یہی اِک دوا ہے
رکھا بھی اس میں کچھ دھوکے کے سوا ہے؟
مجھ کو تو یہ سنسان سی راتیں ہی بھلی ہیں

0
91
آنسو بہا کے سویا ہوں
آج میں پھر سے کھویا ہوں
بیجِ بہار ہو کر بھی میں
ریگستاں میں بویا ہوں
صبح کی طرح جو روشن تھا
تاریکی میں سمویا ہوں

0
80
آہیں بھر کے رونا، رو رو کے آہیں بھرنا
اِک ترے غم نے سکھایا جی جی کے روز یوں مرنا
کیا کبھی دیکھا ہے دل کا جُڑ جُڑ کے بکھرنا؟
خود بتا کیا جائز نہیں میرے اشک ابھرنا؟
وصل نا ہونے میں کس بات کا غم ہے کرنا؟
کرب تو ہوتا ہے جب کسی کا مل کے ہو بچھڑنا

0
61
ایک ربط تھا اب زوال ہے
غمِ عشق بھی اک وبال ہے
تھک گیا ہوں زندہ رہ رہ کہ میں
اب تو مرنا مجھ کو حلال ہے
یہ جو سانس خستہ سی چل رہی
میرے ضبط کا یہ کمال ہے

0
61
ایک اجڑی بستی ہے، میرے دل سے ملتی ہے
ہر طرف جہاں بس اک ویرانی سلگتی ہے
ہر سمت جہاں تنہائی کے جھکڑ ہیں چلتے
رونق بھی جہاں سے اپنے رستے بدلتی ہے
جہاں ہلکی سی آہٹ پر سب سہمے جاتے ہیں
جہاں پر خاموش اِک چیخِ ویراں لرزتی ہے

0
71
ہر رستے ہر چوراہے کو جدا جانا
تھا اپنا تجھ کو سب کچھ، با خدا جانا
ایک رمق سی باقی ہے آج بھی اس دل میں
جاتے ہوئے وہ آخری شمع بجھا جانا
کر نا سکوں گا معاف میں پھر خود کو شاید
روٹھ کے مجھ سے نا میرے ہم نوا جانا

0
61
چلو چل کر پھر ہم اک شب ایسی مانگ لاتے ہیں
چلو چل کر اک خوابِ بے خوابی مانگ لاتے ہیں
چلو کرتے ہیں اب ان سے کچھ دنیا کا کاروبار
ہم دیتے ہیں یہ سونا اور مٹی مانگ لاتے ہیں
جب بھی دیکھا ہماری طرف تو تلخی سے ہی دیکھا ہے
چلو پھر مسکان ان سے اِک قرظاً ہی مانگ لاتے ہیں

0
60
یہ سودا ہوا تھا ان آنکھوں سے میرا
یہ جو اشکِ رواں ہیں یوں سالوں سے میرا
اب ان کو بھی تھوڑا قرار آ جائے گا
سوکھے گا چہرہ اشک کی موجوں سے میرا
اب یہ آنکھیں بھی سو جائیں گی راتوں کو
درد اٹھے گا نا اب یوں سینوں سے میرا

0
46
غمِ عشق میں مارا ہوا لاچار ہوں میں
اِک ہارے ہوئے لشکر کا سالار ہوں میں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا زندہ مزار ہوں میں
اِس رنگین سی دنیا میں بے کار ہوں میں
ایک نا چیز ہوں، اِک انساں بیزار ہوں میں
اِک خاموش سی خواہش کا اظہار ہوں میں

70
یار کے در سے ملی ہے تو حقارت بھی سہی
اس کے ہاتھوں سے ملا غم تا قیامت بھی سہی
کون کہتا ہے مجھے ان کی حمایت بھی ملے
وہ کریں گر تو یوں بے بات ملامت بھی سہی
کیا کرنا مجھے ہر بات کی سچائی سے اب
کرتے ہیں گر وہ تو یوں جھوٹ پہ حجت بھی سہی

0
66
اب کہاں سوزِ دل کا اثر ہوتا ہے
اشک گنتے ہوئے دن بسر ہوتا ہے
ہو گیا عرصہ اِک گلہ بھی نا کیا
حالِ دل اپنا اب مختصر ہوتا ہے
کیا کہا چھوڑ دوں آسماں تکنا میں؟
اُس سے ہی تو بسر ہر پہر ہوتا ہے

0
162
چلو بے خبر ہم ہو گئے تیرے نام سے
چلو اجنبی ہم ہو گئے سرِ عام سے
چلو عشق کے بازار سے کرتے ہیں کوچ
چلو گِر گئے تیرے لیے اِس مُقام سے
چلو مرنا چھوڑا ہم نے تیرے جمال پے
چلو توبہ کرتے ہیں حسن کے مہ جام سے

0
133
کسی بچھڑے ہوئے یار کی مانند
وہ ملا ایک تہوار کی مانند
نگاہِ خشک سے جو رواں ہو جائے
بے بس اُس اشکِ لاچار کی مانند
نظر کو ایک ترسا دیا اُس نے
جو دیکھا بھی تو بیزار کی مانند

105