جہاں پر تھے جام بھی نا کافی
تیرا دیدار واں تھا کافی
جو نظریں ہوئی تھی چار اِک پل
تھا شور اِس دل میں مچا کافی
اٹھتے نا وہ میرے تذکرے پر
تھی مجھے اتنی سی وفا کافی
کبھی بھولے سے بھی نا پلٹے وہ
ہے کاٹی میں نے جفا کافی
کیوں عمر ہے پوری بسر کرنی؟
لمبی ہے یہ تو سزا کافی
کسے پانی ہیں منزلِ عشق اب
ہمیں جستجو کا ہے مزا کافی
خطوں کو سارے کتر رہے ہیں
مجھ سے لگتا، ہیں خفا کافی

0
62