بے کار کواڑوں کو مقفل رکھا
بے جان چراغوں کو مشعل رکھا
وہ جا چکا پھر جس کی خاطر ہم نے
دل کو اسکی یاد سے بوجھل رکھا
یہ آنسو میرے اور بارش گویا
یکساں میرے پورا بادل رکھا
مرہم کی ایک بات نکلی تھی کبھی
ہم نے ہر زخم اپنا گھائل رکھا
اک شعر سنایا تھا کبھی اس نے ہمیں
ہر مصرعے میں ہم نے اسے شامل رکھا
ہر سانس یہ ڈوبی جاتی ہے پھر کیوں
اے رب یہ تو نے دل ہے کہ دلدل رکھا

0
21