ہر رستے ہر چوراہے کو جدا جانا
تھا اپنا تجھ کو سب کچھ، با خدا جانا
ایک رمق سی باقی ہے آج بھی اس دل میں
جاتے ہوئے وہ آخری شمع بجھا جانا
کر نا سکوں گا معاف میں پھر خود کو شاید
روٹھ کے مجھ سے نا میرے ہم نوا جانا
غمِ جاں ہے جو ملا، منظور یہ ہر دفعہ
تیری رفاقتوں میں ،ہے غم کا مزا جانا
بھول ہی جاتے ہیں ہم تو غلطیاں ان کی
اس نے اوروں کی خطا کو بھی میری خطا جانا
سہنے کو مزا غم کا ذرا چکھنا ہے مجھ کو
تم مجھے پھر یاں فراق میں اپنے تھکا جانا

0
61