لو نیند سے بیدار ہو گیا ہوں
پھرسے میں اداکار ہو گیا ہوں
خوابوں میں بھی ہم اب کہاں ہیں ملتے
میں اُن سے بھی بیزار ہو گیا ہوں
خود کے پلّے بھی اب نہیں ہوں پڑتا
میں اور بھی دشوار ہو گیا ہوں
سب گریہ و زاری وہ بھول جانا
تھوڑا میں بھی خود دار ہو گیا ہوں
خوش حالیوں کے واسطے میں بس اِک
بربادی کا معیار ہو گیا ہوں
کر کر کے علاج و معالجہ یہ
میں اور بھی بیمار ہو گیا ہوں
یوں تو سبھی سہہ لیتا ہوں میں اب زخم
پر ترے تیر کا طلبگار ہو گیا ہوں
اب میرے یہ ذرّات کیوں ملیں گے
میں ٹوٹ کے مسمار ہو گیا ہوں
رو بھی نہیں پاتا ہوں اب تو میں یاں
دیکھو میں بھی لاچار ہو گیا ہوں

0
108