لو نیند سے بیدار ہو گیا ہوں |
پھرسے میں اداکار ہو گیا ہوں |
خوابوں میں بھی ہم اب کہاں ہیں ملتے |
میں اُن سے بھی بیزار ہو گیا ہوں |
خود کے پلّے بھی اب نہیں ہوں پڑتا |
میں اور بھی دشوار ہو گیا ہوں |
سب گریہ و زاری وہ بھول جانا |
تھوڑا میں بھی خود دار ہو گیا ہوں |
خوش حالیوں کے واسطے میں بس اِک |
بربادی کا معیار ہو گیا ہوں |
کر کر کے علاج و معالجہ یہ |
میں اور بھی بیمار ہو گیا ہوں |
یوں تو سبھی سہہ لیتا ہوں میں اب زخم |
پر ترے تیر کا طلبگار ہو گیا ہوں |
اب میرے یہ ذرّات کیوں ملیں گے |
میں ٹوٹ کے مسمار ہو گیا ہوں |
رو بھی نہیں پاتا ہوں اب تو میں یاں |
دیکھو میں بھی لاچار ہو گیا ہوں |
معلومات