یونہی آلامِ ہجرِ جاں میں مجھے رہنے دو
میں کہہ چکا جو باتیں دوبارہ سے کہنے دو
یہ رگ و جاں بھی مجھ سے آزادی چاہ رہے
یہ خون جو میرا بہہ رہا ہے اسے بہنے دو
یہ زخم بچھڑ جائیں گے گر مرہم جو لگا
یہ ہی تو وفا دار ملے انکو یہیں رہنے دو
میں ناکامی کا اک بت ہوں نا مکمّل سا
ڈھا رہے ہیں لوگ اگر تو مجھے تم ڈھہنے دو
قائم رکھے آپ اپنے آفتاب کی تپش
وہ گہہ رہا مرا چاند ادھر اسے گہنے دو

0
56