تنہائیوں میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا |
چپ چاپ ہی گر مر جاتے تو اچھا ہوتا |
میرا رک جانا پھر سے مجھے لے ڈوبا ہے |
بس سر جھکا کر یوں گزر جاتے تو اچھا ہوتا |
آلام کو بھی تھوڑا رحم آ ہی جانا تھا |
بس تھوڑی دیر ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا |
کس بے خبری میں آخری بار ملے تھے ہم |
اس دن گر اور سنور جاتے تو اچھا ہوتا |
اور کوئی خلش نا رہ پاتی انکو ہم سے |
وہ تیر جگر میں اتر جاتے تو اچھا ہوتا |
یہ کس جنجال میں خود کو الجھا بیٹھے ہیں ہم |
وفا سے ہم بھی مکر جاتے تو اچھا ہوتا |
معلومات