تنہائیوں میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا
چپ چاپ ہی گر مر جاتے تو اچھا ہوتا
میرا رک جانا پھر سے مجھے لے ڈوبا ہے
بس سر جھکا کر یوں گزر جاتے تو اچھا ہوتا
آلام کو بھی تھوڑا رحم آ ہی جانا تھا
بس تھوڑی دیر ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا
کس بے خبری میں آخری بار ملے تھے ہم
اس دن گر اور سنور جاتے تو اچھا ہوتا
اور کوئی خلش نا رہ پاتی انکو ہم سے
وہ تیر جگر میں اتر جاتے تو اچھا ہوتا
یہ کس جنجال میں خود کو الجھا بیٹھے ہیں ہم
وفا سے ہم بھی مکر جاتے تو اچھا ہوتا

0
75